لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) ٹیسٹ سیریز میں 10 سال بعد شکست کا خطرہ پاکستان کے سر پر منڈلانے لگا۔ پاکستان اور انگلینڈ کے مابین ٹیسٹ سیریز کا مانچسٹر میں پہلا میچ میزبان ٹیم نے3 وکٹ سے جیتا تھا،ساؤتھمپٹن میں دوسرا مقابلہ بارش سے شدید متاثر ہونے کی وجہ سے ڈرا ہوگیا، اب اسی وینیو پر جمعے کو تیسرے میچ میں گرین کیپس کو بقا کی جنگ لڑنا ہے،میزبان ٹیم سرخرو ہوئی تو گرین کیپس کو 10سال بعد انگلینڈ میں پہلی سیریز ہارنے کا صدمہ برداشت کرنا پڑے گا۔
انگلش سرزمین پر پاکستان آخری سیریز2010میں ہارا تھا، سلمان بٹ کی زیرقیادت ٹیم نے 4میں سے صرف ایک میچ جیتا، 3 میں مات ہوئی تھی،اس وقت اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی وجہ سے عالمی کرکٹ میں ایک طوفان اٹھا اور کپتانی کا تاج مصباح الحق کے سرسج گیا، ان کی قیادت میں 2016میں پاکستان نے سیریز 2-2 سے برابر کرتے ہوئے تاریخ میں پہلی اور آخری بار عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ 2018میں سرفراز احمد کپتان تھے، دونوں ٹیموں نے ایک ایک میچ جیتا، اب تیسرا ٹیسٹ ڈرا بھی ہوا تو سیریز ہاتھ سے نکل جائے گی،اگرچہ گذشتہ میچ کی بانسبت اس بار بارش کی مداخلت کم رہنے کی پیشگوئی کردی گئی لیکن انگلینڈ کا ناقابل اعتبار موسم کھیل کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
گذشتہ روز بھی بارش کی وجہ سے کرکٹرزکو انڈور پریکٹس تک محدود رہنا پڑا، کنڈیشنز سے ہم آہنگی کیلیے قدرتی ماحول تو میسر نہیں آ سکا تاہم کرکٹرز نے ہال کے اندر دستیاب سہولیات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مشقوں کا سلسلہ جاری رکھا، بیٹنگ کوچ یونس خان کی موجودگی میں پیسرز کی تیز گیندوں نے ٹاپ آرڈر کی مہارت کا امتحان لیا۔
شان مسعود اور عابد علی کے بعد اظہر علی اور بابر اعظم نے آف اسٹمپ سے باہر جاتی گیندوں کا تسلسل کیساتھ سامنا کرتے ہوئے خامیوں پر قابو پایا، محمد رضوان، فواد عالم اور اسد شفیق کے بعد ٹیل اینڈرز نے بھی بیٹنگ میں صلاحیتیں بہتر بنانے کیلیے پریکٹس کی، وقار یونس نے عباس، شاہین اور نسیم شاہ کو لائن اور لینتھ بہتر بنانے کیلیے مشورہ دیے،فہیم اشرف نے بھی طویل سیشن کیا، مصنوعی ٹرف زیادہ سازگار نہ ہونے کے باوجود یاسر شاہ اور شاداب خان نے اسپن بولنگ کا مظاہرہ کیا۔
ہیڈکوچ وچیف سلیکٹر مصباح الحق اور کپتان اظہر علی میں مشاورت کا سلسلہ بھی جاری رہا، چند کھلاڑیوں نے جم میں ٹریننگ کی۔ دریں اثنا مصباح الحق تیسرا ٹیسٹ میچ جیت کر قوم کو یوم آزادی کا تحفہ دینا چاہتے ہیں،پی سی بی کی ویب سائٹ پر اپنے کالم میں انھوں نے تحریر کیاکہ کسی ٹیسٹ میچ کے دوران یوم آزادی منانا خاص موقع ہوتا ہے۔
1954 میں پاکستان کی انگلینڈ میں پہلی فتح یوم آزادی کے فوری بعد تھی،1982 میں لارڈز کی یادگار جیت بھی ایسا ہی موقع تھا،میری قیادت میں 2016 میں اوول ٹیسٹ جیت کر سیریز برابر کی تو 14 اگست کا دن تھا،ساؤتھمپٹن ٹیسٹ کے دوسرے روز بھی یوم آزادی تھا لیکن بدقسمتی سے بارش کے باعث میچ متاثر ہوگیا، امید ہے کہ یہاں تیسرا ٹیسٹ جیت کر تاخیر سے ہی سہی قوم کو آزادی کا تحفہ دینے میں کامیاب ہونگے۔
مصباح الحق نے لکھا کہ دوسرے ٹیسٹ میں پہلے بیٹنگ کا فیصلہ آسان نہیں تھا مگر ٹاپ آرڈر نے خاصی مزاحمت کی، عابد علی، اظہر علی اور بابر اعظم مشکل ترین کنڈیشنز میں کریز پر اچھا وقت گزارنے میں کامیاب ہوئے۔
محمد رضوان نے ٹیل اینڈرز کے ساتھ کھیلتے ہوئے ٹیم کی پوزیشن بہتر بنائی، بارش سے متاثرہ میچ میں سیمرز کو بولنگ کا موقع ملا تو انھوں نے بھی زبردست کارکردگی دکھائی، دھوپ نکلنے پر یاسر شاہ کی بولنگ بھی نکھری، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ میچ مکمل ہوتا تو ہم کنڈیشنز کا بہت بہتر انداز میں فائدہ اٹھا سکتے تھے، بہرحال بولرز کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، تیسرے ٹیسٹ میں ان سے مزید بہتر کارکردگی کی توقع کر سکتے ہیں۔