واشنگٹن (جیوڈیسک) نئے امریکی وزیر خارجہ کے ایشیا پہلے دورے کے دوران شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل خطرات کا معاملہ ایجنڈے میں سر فہرست ہو گا۔
ایک سینیئر امریکی سفارت کار نے منگل کو جنوبی کوریا میں میزائل دفاعی نظام کی تنصیب پر چین کے اعتراضات کو “غیر ضروری” قرار دیا ہے۔
امریکہ نے شمالی کوریا کی طرف سے پیر کو کم ازکم چار بیلسٹک میزائل تجربات کے بعد جنوبی کوریا میں میزائل دفاعی نظام تھاڈ (ٹرمینل ہائی آلٹیٹیوٹ ایریا ڈیفنس) کی تنصیب کا کام شروع کر دیا۔
چین نے امریکہ کے اس جدید میزائل دفاعی نظام کی تنصیب کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے غیر ضروری اشتعال انگیز فوجی اقدام قرار دیا اور کہا کہ یہ طاقتور ریڈار سسٹم چین کے لیے ایک ممکنہ خطرے کا باعث بھی ہے۔
جنوبی کوریا میں تھاڈ میزائل کی تنصیب کے لیے زمین مختص کیے جانے کے بعد چین کے سرکاری میڈیا نے جنوبی کوریا کی مصنوعات اور اس پر تعزیرات عائد کرنے کے لیے کہا۔
مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے امور کے سبکدوش ہونے والے امریکہ کے نائب سیکرٹری ڈینئل رسل نے کہا کہ “ہم سمجھتے ہیں کہ چین کے اعتراضاب کی بنیاد، اگر (اسے اپنی) سلامتی سے متعلق تحفظات ہیں تو وہ غیر ضروری ہیں۔”
رسل نے کہا کہ “ہم یہ امید کرتے ہیں کہ چین جو توانائی اور اثر و رسوخ ریپبلک آف کوریا کے خلاف صرف کر رہا ہے وہ اسے بہتر استعمال میں لائے۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا بہتر استعمال شمالی کوریا کو باور کروانا ہے کہ وہ بند گلی کی طرف جا رہا ہے۔”
رسل نے یہ بات وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی آئندہ ہفتے چینی صدر ژی جن پنگ کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے پہلے کہی۔
نئے امریکی وزیر خارجہ کے ایشیا پہلے دورے کے دوران شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل خطرات کا معاملہ ایجنڈے میں سر فہرست ہو گا۔
ٹلرسن ٹوکیو، سیئول اور چین بھی جائیں گے۔
محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان مارک ٹونر نے منگل کو کہا کہ “ہمیں دیگر راستوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بات بھی اس دورے میں شامل ہے کہ ہم شمالی کوریا سے متعلق نئے طریقہ کار وضع کرنے کے لیے خطے میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں سے بات کریں گے۔”
ٹونر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ “شمالی کوریا کے حالیہ طرز عمل کے تناظر میں ہم اس مرحلہ پر نہیں ہیں جہاں ہم ان کے ساتھ کوئی براہ راست معاملہ کریں۔ ہم اس طرز عمل کی کسی بھی طور پزیرائی نہیں کریں گے۔ ”
ٹونر نے کہا کہ انتظامیہ “چین کے ساتھ تعمیری تعلقات کی طرف پیش رفت کا ارادہ رکھتی ہے۔” انہوں نے کہا کہ واشنگٹن اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے کہ چین بین الاقوامی اصولوں، منصفانہ تجارت اور انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔