بنکاک (جیوڈیسک) تھائی لینڈ کی پارلیمان نے ملک کی سابق وزیرِاعظم ینگ لک شیناوترا کے مواخذے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد وہ ملکی سیاست میں پانچ برس تک حصہ نہیں لے سکیں گی۔
ان کا مواخذہ چاولوں کی متنازع سبسڈی سکیم میں بطور وزیرِاعظم ان کے کردار پر کیا گیا ہے۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ سابق وزیرِاعظم کے مواخذے کے لئے فوج کی حمایت یافتہ اسمبلی کے 220 ارکان میں سے 132 کی حمایت درکار تھی۔
جمعہ کو ووٹنگ کے دوران 190 نے مواخذے کے حق میں جبکہ 18 نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ آٹھ نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کیا۔ اس سے قبل تھائی لینڈ کے اٹارنی جنرل کے دفتر کے مطابق ینگ لک شیناوترا پر چاولوں کی زیادہ قیمت پر خریداری کے معاملے میں فوجداری مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تھا۔
ینگ لک شیناوترا کو مئی 2014ء میں فوجی بغاوت سے قبل وزارتِ عظمیٰ چھوڑنی پڑی تھی اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ینگ لک پر عائد کئے جانے والے الزامات ان کا سیاسی کیریئر ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔ ینگ لک کی سماعت تھائی لینڈ کی مقبول ترین سیاسی جماعت رہی ہے اور 2001ء سے اب تک ہونے والی انتخابات جیتتی رہی ہے۔
شیناوترا غریبوں میں مقبول وزارتِ عظمیٰ سے علیحدگی کے باوجود ینگ لک اور ان کے بھائی اور سابق وزیرِ اعظم تھاکسن شیناوترا ملک کی غریب عوام میں بہت مقبول ہیں لیکن ملک کا امیر اور متوسط طبقہ انھیں پسند نہیں کرتا اور ان پر بدعنوانی اور طاقت کے ناجائز استعمال کے الزامات لگاتا ہے۔
2006ء میں فوج کی جانب سے تھاکسن شیناوترا کو اقتدار سے الگ کئے جانے کے بعد سے تھائی لینڈ سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔