تھائی لینڈ (اصل میڈیا ڈیسک) تھائی لینڈ میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آنے کے بعد حکام نے حساس نوعیت کی خبریں شائع کرنے اور نقل و حمل پر بندشیں عائد کرنے کے ساتھ ہی پولیس اور فوج کو اضافی اختیارات دینے کا فرمان جاری کیا ہے۔
تھائی لینڈ کے وزیر اعظم پرایوتھ چن اوچھا نے جمعرات 15 اکتوبر کو ایسے امتناعی احکامات پر دستخط کردیے ہیں جس کے تحت پانچ سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور عوامی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی جزوی بندشیں عائد کر دی گئی ہیں۔ اس فرمان میں ”حساس نوعیت کی خبروں ” کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ پولیس اور فوجیوں کو ”ہنگامی صورتحال” سے بذات خود نمٹنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
بدھ کی شب کو دارالحکومت بینکا ک میں حکومت مخالف زبردست مظاہرے ہوئے تھے جس کے بعد وزیراعظم پرایوتھ نے ”جارحیت ریاستی استحکام کو متاثر کر رہی ہے” کا حوالہ دیتے ہوئے یہ نیا فرمان جاری کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”اس صورت حال کو موثر طریقے سے ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا بہت ضروری ہے تاکہ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھا جا سکے۔” ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ہنگامی صورت حال کے پیش نظر جاری ہونے والا یہ فرمان کتنے دنوں تک نافذ رہیگا۔
ہنگامی اقدام کے اعلان کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ منگل کے روز مظاہروں کے سبب اس راستے سے گزرنے والے شاہی قافلے کی راہ میں رکاوٹیں آئی تھیں۔ تھائی لینڈ میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ پولیس اب تک مظاہروں کی قیادت کرنے والے تین اہم لیڈروں کو گرفتار کر چکی ہے۔
حکومت نے جو نیا فرمان جاری کیا ہے اس کا نفاذ جمعرات 15 اکتوبر کی صبح سے ہوگیا ا اور اس کے فوری بعد جہاں پر بھی مظاہرین جمع ہوئے تھے وہاں کے راستوں اور گلیوں پر پولیس قابض ہوگئی۔ بینکاک میں مظاہروں کا اہم مقام ایک تجارتی مرکز کا راستہ ہے جہاں سے بیشتر مظاہرین رات کو پہلے ہی گھر جا چکے تھے تاکہ دو پہر بعد وہ پھر سے وہاں جمع ہوسکیں۔
بدھ 14 اکتوبر کو ہزاروں لوگوں نے وزیراعظم پرایوتھ کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے سرکاری عمارت تک مارچ کیا تھا۔ وزیراعظم پرایوتھ چان اوچھا پہلے فوج کے سربراہ ہوا کرتے تھے اور پھر انہوں نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا تھا۔ ان احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ 14 اکتوبر سن 1973 کو ہونے والی طلبہ کی اس بغاوت کی برسی کے موقع پر شروع ہوئے، جس کی وجہ سے ملک میں فوجی آمریت کا خاتمہ ہوا تھا۔
نوجوانوں کی قیادت میں چلنے والی اس تحریک کا آغاز گزشتہ جولائی میں ہوا تھا جب حکومت اور آئین میں اصلاحات کے لیے چھوٹی چھوٹی ریلیاں شروع ہوئی تھیں۔
مظاہرین ملک میں ایک نئے آئین کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی انسانی حقوق کے علمبرداروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ بعض افراد کا مطالبہ ہے کہ تھائی لینڈ کی بادشاہت میں اصلاحات کی ضرورت ہیں جسے ایک طویل عرصے سے ملک کی ایک مقدس شناخت کے طور دیکھا جاتا رہا ہے۔ ان تمام مطالبات کے لیے گزشتہ ماہ بھی بینکاک میں ایک زبردست ریلی منعقد کی گئی تھی۔
سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم نے پہلے تو ایک منتخبہ حکومت کا تختہ پلٹ دیا پھر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اقتدارکسی بھی صورت میں فوج کے ہاتھ میں ہی رہے، انہوں نے گزشتہ برس ہونے والے عام انتخابات میں بھی بڑے پیمانے دھاندلیاں کیں۔ لیکن وزیراعظم ان الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔
تھائی لینڈ کے آئین میں بادشاہ کو بھی کافی اختیارت حاصل ہیں اور مظاہرین چاہتے ہیں اس پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ بادشاہ نے فوج کے ایک حصے پر بھی کافی کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور ناقدین اسے بھی واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن شاہی خاندان عوام کے ان مطالبات پر توجہ دینے کے بجائے انہیں ہمیشہ مسترد کرتا رہاہے۔ تھائی لینڈ کے قوانین کے مطابق بادشاہ تنقید سے بھی بالا تر ہے اور اس پر نکتہ چینی کرنے والوں کو 15 برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔