تھیلسیمیا خون کی ایک ایسی موروثی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔انجم حبیب
Posted on May 9, 2014 By Majid Khan سٹی نیوز, لاہور
لاہور: تھیلسیمیا خون کی ایک ایسی موروثی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اس بیماری کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر عوامی آگہی کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی بھی سخت ضرورت ہے اگر شادی سے پہلے جوڑے کا تھیلسیمیا ٹیسٹ کروالیا جائے تو اس مرض کے پھیلاؤ کو روکا سکتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں تھیلسیمیا کے لاکھوں مریض بچے موجود ہیں جنہیں مستقل انتقال خون کی ضرورت رہتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پرنسپل پی جی ایم آئی پروفیسر انجم حبیب وہرہ، ڈین چلڈرن ہسپتال ڈاکٹر مسعود صادق، پروجیکٹ ڈائریکٹر تھیلسیمیا کنٹرول پروگرام پروفیسر شمسہ ہمایوں ،پروفیسر آغا شبیر علی اور پروفیسر فوزیہ فرزانہ نے عالمی یوم تھیلسیمیا کے سلسلے میں پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے جیل روڈ تک منعقدہ آگہی واک کے اختتام پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ واک میں پوسٹ گریجویٹ کالج آف نرسنگ، نرسنگ سکول جنرل ہسپتال، گنگارام، چلڈرن کی طالبات کے علاوہ میڈیکل کے طلباء و طالبات نے شرکت کی۔طبی ماہرین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تھیلسیمیا میجر اور اور تھیلسیمیا مائنر کے مریض بچے ہم سب کی مدد کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر تھیلسیمیا مائنر کے جوڑے کی شادی کرلی جائے تو پیدا ہونے والا بچہ میجر تھیلسیمیا کا شکار ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ایسی شادیوں کو روکنے کے لیے نکاح سے قبل تھیلسیمیا ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا جائے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی دسمبر 2012ء کو شادی سے پہلے تھیلسیمیا سکریننگ ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کی قرارداد منظور کرچکی ہے۔جس کی روشنی میں باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔ طبی ماہرین نے کہاکہ تھیلسیمیا متعدی مرض نہیں ہے جو ایک دوسرے کو چھونے یا ایک دوسرے کی اشیاء استعمال کرنے سے نہیں بلکہ یہ بیماری صرف خون کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ تھیلسیمیا کے مریض میں خون کے سرخ خلیے (Red Blood Cell) کم تعداد میں بنتے ہیں اور ہیموگلوبن کی تعداد کم مقدار میں ہوتی ہے اور مریض کومستقل طور پر تازہ خون لگوانا پڑتا ہے جس سے بہت سی دیگر پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔طبی ماہرین نے کہاکہ پاکستان میں تقریبا 82فیصد جوڑے یعنی فرسٹ کزن، 7فیصد خونی رشتے دار، 6فیصد سے زیادہ ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف 4.4فیصد برادری رشتے داروں سے باہر شادی شدہ ہیں۔ تحقیق کے مطابق 20فیصد بچے کوئی نہ کوئی جسمانی مرض کا شکار ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اس مرض کو محدود کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی شادی سے قبل تھیلسیمیا سکریننگ ٹیسٹ لازمی کروالیں اس سلسلے میں طبی ماہرین کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کو بھی کردار ادا کرنا ہو گا۔
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com