تحریر: سعیداللہ سعید امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کے بعد پاکستانی حکومت، ارمی چیف اور پاکستانی عوام کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ حوصلہ افزا ہے۔ یہ ایک مستحسن اقدام ہے کہ اہل وطن نے ایک آواز ہوکر امریکی گیدڑ بھبکیوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے امریکہ کو یہ بھی یاد دلانے کی کوشش کی کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ ”نام نہادجنگ،، میں دنیا کے کسی ملک سے زیادہ قربانیاں دی ہے۔
اس بات میںدو رائے نہیں کہ پاکستان نے امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی جنگ میں اجتماعی ضمیر کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر بڑے دکھ اٹھائے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کبھی امریکی انتظامیہ نے دل کھول کر پاکستانی کردار کی تعریف کی ہو۔ تعریف تو خیر وہ کیا کرتے ۔مختلف وقتوں میں وہ پاکستان سے مزید کچھ کرنے کا مطالبات کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب جو لب و لہجہ صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنایا ہے، جس دوٹوک انداز میں اس نے پاکستان کو امریکہ کی دل کھول کر ”خدمت،، کرنے بصورت دیگر سخت نقصان اٹھانے اور ہندوستان کو افغانستان میں مزید کردار اداکرنے کی بات کی ہے ۔ اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ ممکن ہے ٹرمپ کے حالیہ پالیسی بیان برائے جنوبی ایشیا نے ان چند افراد کے صفوں میں قیامت برپا کی ہو جو دہشت گردی کے کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کا امریکہ کا ساتھ دینے کو درست سمجھتے ہیں ۔ ان کے حق میں دلائل دیتے ہیںاور اہل وطن کو ڈرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔لیکن بحثیت مجموعی اہل وطن ٹرمپ کے ہرزہ سرائی پر قطعاً پریشان نہیں۔ کیونکہ وہ شروع دن سے یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر شروع کیے گئے امریکی مہم جوئی کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ نہیں بلکہ اسے مزید بڑھاوا دیکر خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم کو صدر امریکہ کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔جنہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے صاف کہدیاہے کہ امریکہ کا دوست پاکستان نہیں انڈیا ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے جو لب و لہجہ پاکستان کے حوالے سے اپنایا ہے وہ لہجہ ہرگز دوستانہ نہیں بلکہ مکارانہ اور دشمنی پر مبنی ہے۔ اسی لیے وطن عزیز کے پالیسی سازوں کی خدمت میںدست بستہ عرض ہے کہ اب بھی موقع ہے اس امریکی مصیبت سے جان چھڑائی جائے۔کیونکہ اس مصیبت یعنی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ نے پاکستان کو سوائے دکھ اور مصیبت کے اور کچھ نہ دیا۔اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ افغانستان میں شروع کردہ امریکی مہم جوئی اور پاکستان کا ان کا اتحادی بننے کے بعد امریکہ نے پاکستان کو چودہ ارب ڈالر امداد دیا ہے ۔ اس کے مقابلے میں وطن عزیز کا جو نقصان ہوچکا ہے وہ ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ جانی نقصانات کا جو اعداد شمار حکومت ہمیں بتاتی ہے وہ ستر ہزار سے زیادہ ہے۔
آج اگر ہمیں بیرون سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے تو وہ بھی اس امریکی جنگ کی وجہ سے ہے ۔اس لیے کہ جہاں امن نہیں ہوگا تو کون بے وقوف وہاں سرمایہ کاری کرے گا۔اسی لیے قدرت نے ہمیں ایک بار پھر زبردست موقع عطاء کردیا ہے۔اب ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاکر امریکہ کو خیر باد کہدینا چاہیے۔کہ اس کے سوا اب پاکستان کے پاس آپشن ہی کوئی نہیں۔اگر خدا نخواستہ پاکستان پرویزی پالیسی جاری رکھتے ہوئے امریکہ کے سامنے سرنڈر کردیتا ہے تو پھر ہماری تباہی یقینی ہے۔ وہ اس لیے کہ اب امریکہ نے انڈیا کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کا کھلا موقع دیا ہے۔ اب اہل وطن کو سوچنا چاہیے کہ اگر امریکہ افغانستان میں فتح یاب ہوجاتا ہے (اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو) تو انڈیا کا وہاں پر اہم رول ہوگا۔ کیا ہمارے پالیسی ساز اس بارے غور کرنا پسند کریں گے کہ ایک ایسا افغانستان جہاں انڈیا مضبوط پوزیشن میں ہو، کس قدر پاکستان کے مفاد میں ہوگا؟ کیا وہاں سے دہشت گردی اور تخریب کاری کے نئے دروازے پاکستان کی طرف نہیں کھلیں گے؟
کیا انڈیاہمیں سکون سے جینے دے گا؟ دوسری اگر طرف پاکستان اتحادی ہوکر بھی امریکہ کے ہاتھ افغانستان میں کچھ نہ آئے تو کیا وہ آرام سے یہ سب کچھ برداشت کرلے گا۔ہرگز نہیں۔ بلکہ امریکہ حسب عادت ملبہ پھر بھی پاکستان پر گرائے گا۔ ایسے میں وہ خطے اور ملک میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے وطن عزیز کے امن و امان کو تباہ و برباد کردے گا۔ اب ہمیں غور کرنا ہوگا کہ امن و امان کے ابتر صورتحال میں کیا چائینہ پاک اکنامک کوریڈور کامیابی سے ہمکنار ہوسکے گا؟ کیا وطن عزیز کا معاشی پہیہ تیزی سے گھوم پھرے گا؟ کیا پاکستان ایشین ٹائیگر بن پائے گا؟ یہ اور اس جیسے کئی دیگر خواب امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے شائد کبھی بھی شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکے۔کیونکہ یہ سچ ہے کہ خواب کو حقیقت کا روپ زندہ قومیں ہی دے سکتی ہے۔اب اللہ پاک نے اس قوم کو یہ عظیم موقع عطاء کرہی دیا ہے کہ یہ قوم خود کو زندہ قوم ثابت کرکے دکھائے۔ اگرچہ اس راہ میں مشکلات بہت آئیں گے لیکن وہ مشکلات عارضی ہوں گے اور ان سے چھٹکارا یقینی۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔