ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے ایک نکتے نے محرم سے مجرم بنا دیا
جب سب کچھ فانی ہے تو ہر انسان کو ملنے والا اختیار بھی عارضی اور آزمائش ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب شعیب دستگیر کی قیادت میں پنجاب پولیس کی لاک ڈاﺅن کے دوران خدمات قابل تحسین ہیں۔ گزشتہ روزترجمان پنجاب پولیس کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب شعیب دستگیر کے احکامات پر صوبے کے تمام اضلاع میں پولیس ٹیمیں ذخیرہ اندوزی ایکٹ اورContainment of Corona Pandemic کے متعلق حکومت پنجاب کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات پر سختی سے عمل درآمد کروارہی ہے تاکہ وبائی وائرس کورونا کے پھیلاﺅ کو کم سے کم کرکے شہریوں کی قیمتی جانوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں پولیس ٹیمیں قرنطینہ سنٹرز پر کورونا وائرس کے خلاف ڈاکٹرز کے ہمراہ فرنٹ لائن پر مصروف عمل ہیں جبکہ ضلعی پولیس سربراہان کی زیر نگرانی پولیس ٹیمیں محکمہ صحت اور دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر کورونا وائرس سے بچاﺅ کیلئے اقدامات میں مصروف ہیں اورساتھ ہی ذخیری اندوزی ایکٹ کے تحت ضروری سامان و اشیاءمہنگے داموں فروخت کرنے والے سفاک ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بلا تاخیر قانونی کاروائی کویقینی بنایا جا رہا ہے ۔
اس سلسلے میں پولیس ٹیموں نے 16مارچ سے شروع آپریشن میںصوبے بھر میں1363ناکے لگائے ہیں جہاں اب تک 171816گاڑیوں ،407308موٹر سائیکلوں اور856827شہریوں کو چیک کیا گیا ہے ۔ 513353شہریوں کو وارننگ دی گئی ، 36942سے سیکیورٹی بانڈزلئے گئے جبکہ دفعہ144کی خلاف ورزی پر20620ایف آئی آرز درج کرتے ہوئے23243 شہریوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے18113شہری ضمانت پر رہا ہوئے جبکہ قانون کی خلاف ورزی پر3499دوکانوں اور224ریستورانوں کے خلاف کاروائی بھی عمل میں لائی گئی ۔اسی طرح ذخیرہ اندوزی ایکٹ کی خلاف ورزی پر440مقدمات درج کرتے ہوئے622قانون شکنوں کے خلاف کاروائی کی گئی جبکہ ذخیرہ اندوزوں سے 479825کلو گرام گندم، 335265کلو گرام چینی، 250801ماسک، 999سینٹائزر، 28طبی آلات اور 141546دیگر اشیا برآمد کی گئیں۔16مارچ سے جاری آپریشن کے دوران211120شہریوں کو کورونا سے متعلق آگاہی جبکہ218278شہریوں کو پولیس ٹیموں نے امدادبھی فراہم کی ۔گذشتہ روزبھی صوبہ بھر میں1363 ناکے لگائے گئے جہاں4939گاڑیوں اور11271موٹر سا ئیکلوں کو چیک کیاگیا۔پولیس ناکوں پرچیک کئے گئے 21912شہریوں میں سے13254کو وارننگ دے کر چھوڑا گیا۔ 861شہریوں سے سیکیورٹی بونڈز لئے گئے، 549ملزمان گرفتا ر ہوئے جبکہ252نے ضمانتیں کروائیں۔مجموعی طور پر343ایف آئی آر درج کی گئیں جن میں801ملزمان کو نامزد کیا گیاجبکہ اسی دوران قانون کی خلاف ورزی پر77دوکانوںکے خلاف قانونی کاروائی بھی عمل میں لائی گئی۔
آئی جی پنجاب شعیب دستگیر نے ریجنل اور ضلعی پولیس افسران کو قانون شکنوں کے خلاف کاروائی میں تیزی لانے کی ہدایت دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ پولیس کاروائیوں کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ سنٹرل پولیس آفس بھجوائی جائے ۔ فیلڈ ڈیوٹی پرتعینات افسران و اہلکار کورونا وائرس سے بچاﺅ کی احتیاطی تدابیرپر عمل درآمد ہر صورت یقینی بنائیںاورپولیس ٹیمیں شہریوں کی سہولت کیلئے دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کروبائی مرض کے تدارک کیلئے ہونے والے اقدامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے اگر بات کی جائے تصویر کے دوسرے رخ کی تو ویسے تو ہمارے ہاں صدر سے لے کر درجہ چہارم کے ملازمین تک اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے مگر ابھی ہمارا موضوع پولیس کا ادارہ ہے۔بتایا جاتاہے کہ ہماری پولیس کے صرف تین کام ہیں۔ حکومتی اراکین کا تحفظ اورانکے ایما پر ناجائز کام اور ظلم و ستم کرنا۔ہزاروں متاثرین کی درخواستیں تھانوں میں زیر التواہونا روشن مثال ہے۔2 پولیس کا تحفظ اور نمبر 3 مظلوم بے کس غریب شہریوں پر حد درجہ ظلم ڈھانا چاہئے‘ وہ کسی بھی صورت میں ہو۔ تھانوں میں جوکچھ ہوتا ہے وہ بیان کے قابل بھی نہیں۔ بخدا تھانے بکتے ہیں شریف شہریوں سے زیادتی ہو بھی جائے تووہ اپنا مقدمہ اللہ کی بارگاہ میں رکھ دیتے ہیں تھانے میں جانا گوارا نہیں کرتے۔
سینکڑوں ایسی مثالی ہیں کہ مجرموں کو تھانوں میں ہی ”بری“ کردیا جاتا ہے اور الٹا ان کے مدعیوں کے خلاف مقدمات درج ہوجاتے ہیں اگر آپ کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو تو جب آپ تھانے کا رخ کرتے ہیں تو ”با اثر“ ملزم آپ سے پہلے جاکر مٹھی گرم کرآتے ہیں۔ ایم پی اے اور ایم این اے حضرات اپنے علاقے کے تھانوں کے مالک اور قابض ہوتے ہیں۔ ان کے حکم کیخلاف وہاں چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی ایس ایچ او حضرات و دیگر اہل کار پھر اپنے دل کی بھڑاس غریب اور شریف شہریوں پر نکالتے ہیں۔ تفتیش کیا ہوتی ہے؟ اگر ملزم کا مک مکا ہو گیا ہے تو تفتیش کا دورانیہ باعزت گزر جائیگا اور ضمانتیوںمیں بھی ایسی رپورٹ لکھی جائیگی کہ عدالت بھی اسے بری کرنے یا رہا کرنے پر مجبور ہوگی۔ اگر آپ غریب ہیں مک مکا کی بھی اہلیت نہیں رکھتے تو آپ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ دوران تفتیش تشدد سے آپ کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ آئے روز ایسی رپورٹیں اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔اور قومی سانحات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔
اس با ت میں کوئی شک نہیں کے پولیس کے اندرایک ایسا مافیا بھی ہے جس کے سامنے صدر ،وزیر اعظم سمیت تمام حکام بے بس ہو جاتے ہیں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی جی پنجاب کو محکمہ پولیس کی بدنامی کا باعث بننے والے ملازمین کے احتساب کے ایک سیل قائم کرنا چاہئے اور ہر ماہ اسے حوالے سے رپورٹ بھی جاری کرنی چاہئے تاکہ عوام کے پولیس کے بارے میں پائے جانے والے خدشات کا ازالہ ہوا سکے