تحریر : روہیل اکبر عمران خان نے دھرنے کا اعلان کیا تو مختلف چینلز پر بیٹھے حکومتی نمک خواروں کی ایک مخصوص لابی نے شور کرنا شروع کر دیا کہ دھرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا صرف انسانی جانوں اور وقت کا ضیاع ہوگا کیونکہ حکومت بہت مضبوط ہے اور رہی سہی کسر حکومتی وزیروں اور مشیروں نے بھی پوری کیے رکھی جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے آمریت کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے شہر اقتدار کو خود ہی لاک ڈاؤن کر دیا اور جمہوری انداز میں احتجاج کرنے والوں پر لاٹھیاں، ڈنڈے اور بے پناہ آنسو گیس کے شیل بارش کی طرح برسائے گئے پی ٹی آئی کے بہت سے ورکروں کو انکے گھروں سے پولیس اٹھا کرلے گئی کچھ کو راستوں میں پکڑ لیا اور بہت سو کو اسلام آباد میں دھر لیا گیا جیلوں میں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ قیدی موجودہیں اور اوپر سے حکومت نے پارٹی ورکروں کو بھی جیل بھیج دیا۔
حکومتی وزیر شیخ رشید کو لال حویلی میں قید کرکے کہتے رہے کہ ہم دیکھیں گے کہ وہ کیسے باہر نکلتا ہے اور جب شیخ رشید راولپنڈی کی گلیوں میں پولیس کو چکر دیکر کمیٹی چوک پہنچ گیا تو بجائے اس کے کہ بڑی بڑی بڑکیں ہانکنے والے والے خوش آمدی شرمندہ ہوتے الٹا انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ہم شیخ رشید کو بھگا بھگا کر ماریں گے ہمارے سیاستدانوں اور بعض حکومتی تنخواہ دار صحافیوں کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ انہیں اپنے کہے ہوئے الفاظ بھی یاد نہیں رہتے کیونکہ انہیں جوجھوٹی عزت، دولت اور شہرت ملی ہوئی ہے وہ صرف حکمرانوں کی چاپلوسی کی بدولت ہے اگر وہ حقیقت کے مطابق بولنا اور لکھنا شروع کردیں تو پھر وہ حقیقی معنوں میں عوام کی نظروں میں ہیرو بن جائیں گے پانامہ لیکس کے حوالہ سے سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت شروع ہونے سے عمران خان کی ہرگز ہار نہیں ہوئی بلکہ آنے والا وقت بتائے گا کہ عمران خان نے انتہائی دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کا منہ کالا کر دیا ہے۔
جن کی خواہش تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کے ورکروں کا خون سڑکوں پر بہے اور ملک کے حالات خراب ہوں اور لوٹ مار کرنے والوں کو مزید لوٹ مارکرنے کا موقعہ مل سکے مگر اللہ تعالی کا لاکھ ،لاکھ شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا کیونکہ حکمرانوں ،انکے حواریوں اور مفاد پرستوں کے اپنے بچے تو اس دھرنے میں شریک نہیں تھے خدانخواستہ اگر خون خرابہ ہوتا تو مرنے والے پھر غریب کے بچے ہی ہونے تھے کیا ہم اپنے ایک پاؤ گوشت کے لیے غریب کسان کی بھینس کو ذبع کرنا چاہتے تھے ؟اب آتے ہیں ہم سپریم کورٹ کی طرف گذشتہ روز جب سپریم کورٹ نے فریقین سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں تو عمران خان کے وکیل حامد خان اور نعیم بخاری کے جواب کا لب لباب یہ تھا کہ تلاشی ۔جس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ تحقیقاتی کمیشن چاہتے ہیں یا جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے ؟عمران خان کے وکلاء کا جواب تھا جو بھی شفاف ہو ،باختیار کمیشن ہو ،جس کے ٹرمز آف ریفرنس ہمارے لیے قابل قبول ہوں۔
Supreme Court
اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے اس پر حامد خان کا جواب تھا کہ جو بھی بنائیں معاملہ آپ کی عدالت میں ہی آنا ہے اب یہ آپ پر منحصر ہے عدالت نے حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے اٹارنی جنرل سے پوچھا آج تک نیب نے پانامہ کی تحقیقات کیوں شرع نہیں کیں؟اٹارنی جنرل اور نیب کی طرف سے پیش ہوئے نمائندوں نے سرجھکا کر جواب دیا کہ یہ انکے اختیارات میں نہیں آتا ۔چیف جسٹس کا کمنٹ تھا کہ اگر ایسے معاملات آپ کے اختیارات میں نہیں آتے تو پھر قانون سازی کرکے نیب کو فعال کیوں نہیں بنایا گیا؟جواب میں حکومتی وکیلوں کی طرف سے مکمل خاموشی طاری ہوگئی پھر عدالت نے کہاکہ وہ اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینے کو تیار ہیں اور گارنٹی دیتے ہیں کہ شفاف تحقیقات کروائیں گے۔
ٹیکس کی تحقیقات بھی ہونگی اور پیسے باہر لے جانے کا معاملہ بھی دیکھا جائیگا مگر شرط یہ ہے کہ کیا فریقین کو عدالت کی تحقیقات کے نتائج قبول ہونگے ؟عمران خان کے وکیل حامد خان نے وہاں موجود تحریک انصاف کے رہنماؤں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی طرف دیکھا انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا تو حامد خان نے کہا کہ ہمیں شفاف تحقیقات کے نتیجہ میں ہونے والا ہر فیصلہ قبول ہوگا۔چیف جسٹس نے یہی سوال شریف خاندان کے وکیل سے دہرایا تو اپنی جگہ سے کھڑا ہو ادھر ادھر دیکھا موبائل پر اپنے موکل سے بات کی اور سرجھکا کر کہا کہ اسے مشورہ اور غور کرنے کے لیے تین دن کی مہلت چاہیے جمہوریت اور عدالتی نظام پر اعتماد کی باتیں کرنے والے نواز شریف کے وکیل نے جب عدالتی فیصلہ ماننے پر 3دن کی مہلت مانگی تو چیف جسٹس سمیت تمام جج صاحبان مسکرا دیے۔
انہوں نے مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے ،ہم ہی کرینگے آپ دنیا میں پاکستان کو مزید تماشا مت بنائیں ۔اس سارے منظر نامے میں عمران خان نے لاک ڈاؤن ملتوی کرنے کا درست فیصلہ کرکے ایک دفعہ پھر پاکستان کے عدالتی نظام کو اپنا وقار بنانے کا موقعہ دیدیا ہے کیونکہ اس طرح کے مواقع بار بار نہیں ملتے جبکہ خان نے تلاشی مانگی تھی وہ چاہے پی ٹی آئی لے یا عدالت ایک بار پھر کپتان فاتح کھڑا ہے اور تین دن کی مہلت مانگنے والے شرمسار اور پریشان ہیں جبکہ محب وطن سیاستدان ،صحافی اور عوام اس فیصلے پر سپریم کورٹ اور خان کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے غریب ،مجبور اور محکوم عوام کو بے موت مرنے سے بچا لیا۔