تھر پاکستان کا پسماندہ ترین علاقہ ہے وہاں بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہے۔ تین چار مہینے پہلے حکمرانوں کو بتا دیا گیا تھا کہ تھر میں قحط کی کیا صورتحال درپیش ہوگی۔ آج اسی فیصد علاقہ قحط سالی کا شکار ہے اور اسطرح کی صورتحال کا سامنا پر سال یا ہر تین سال بعد ضرور ہوتا ہے۔ اب تک 600 معصوم بچوں کی اموات کا کون زمہ دار ہے۔ ساٹھ ہزار گندم کی بوریاں گداموں میں پڑی رہیں اور معصوم جانیں بھوک اور پیاس سے مرتی رہی۔ کہا جاتا ہے کہ گندم کی بوریوں کی تقسیم ا سلئے بھی نہ ہوسکی کہ پچھلے سال ٹرانسپورٹر کو رقوم کی پے منٹ نہیںکی گئی۔ اس لئے انہوں نے اس دفعہ گندم کی ترسیل سے انکار کر دیا۔ دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے۔ کہ گندم کے ڈیلر کو پچھلے دو سالوں کی نسبت مزید رقم کی ادائیگی پر اصرار کیا جارہا ہے۔ اور پچیس بوریوں کے لئے بھی چار ہزار روپیہ مزید مانگے جارہے ہیں۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ میڈیا کو اس سلسلے میں مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے کہ اس نے بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ لیکن اگر میڈیا شور نہ مچاتا تو شاید اب تک جو امدادی رقوم کا اعلان ہوا ہے یا کاروائی کی جارہی ہے وہ بھی نہ ہو پاتی، اس لیئے تواب کوئی ہیلی کاپٹر میں اور کوئی اپنی لش پس چمکتی گاڑیوں میں دھول اڑاتے شور مچاتے قحط زدہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم وزیر اعلی بلاول بھٹو سب تھر پہنچے تو یہ سب میڈیا کے شور و غوغا کرنے سے ہی ممکن ہوا ہے۔ اور اسی بگڑتی صورتحال کو بیان کرنے کے بعد ہی امدادی رقوم کا بھی اعلان کیا گیا۔ ورنہ اس سے پہلے تو لگتا تھا کہ حکمران اور صاحب حیثیت لوگ سب کچھ کھا پی کے اور لمبی تان کر سو رہے ہیں۔
تھر کی پسماندگی 65 سالوں سے برقرار ہے ہر حکمر ان جماعت کی طرف سے یہ ایک مضحکہ خیز بیان داغا جاتا ہے کہ تھر میں ترقی ممکن نہیں ہے۔ اگر حکومت تھر کے غریب عوام کو پانی بجلی سکول اور صحت کی بہترین سہولتیں فراہم کر دیں تو کیوں ایسا ممکن نہیں ہے کہ تھر کی بکھری ہوئی آبادی ایک جگہ پر اکٹھی ہوجائے۔ جب غریب عوام کو زندگی سے بھرپور یہ سہولتیں میسر ہوں گی تو وہ ضرور اپنی جگہ کو چھوڑ کر ایک اچھی اور سہولت والی جگہ پر بسنا اور رہنا پسند کریں گے۔ اور اب تو تھر میں کوئلہ بھی وافر مقدار میں دریافت ہوچکا ہے۔ اور تھرکول پروجیکٹ پر اگر دیانتداری سے کام جاری رہا تو عنقریب اس علاقہ کی صورتحال خوشحالی اور ترقی کی صورت میں بدل جائے گی۔
Qaim Ali Shah
لیکن ابھی تو یہ کس قدر دکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ تھر میں مور کا رقص نہیں بلکہ موت کا رقص جاری ہے۔ گندم کی تقسیم اپنوں تک محدود ہے۔ اور باقی آبادی ترس رہی ہے۔ سند ھ کے وزیر اعلی صاحب دوبئی روانہ ہوگئے ہیں کہا یہ جاتا ہے کہ وہ سابق صدر زرداری کو تھر کی صورتحال پر بریفنگ دیں گے۔ کاش اس طرح کے دوروں سندھ فیسٹول پر روپیہ بہانے اور دورے کرنے والے حکمرانوں کے اعزاز میں پر تکلف کھانا کرنے والوں کو تھر کے غریب اور مرتے ہوئے معصوم بچے بھی یاد رہیں۔
سندھ کے ان دور دراز علاقوں میں جو اکا دکا ہسپتال قائم کئے گئے ہیں وہاں بچوں کے لئے فراہم کی گئی ادویات اور سہولیات ناکافی ہیں ان علاقوں میں ڈاکٹر بھی موجود نہیں ہیں۔ ڈاکٹرزکی اکثریت شہروں میں کام کرنا پسند کرتی ہے۔ ان غریب لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہ خانہ بدوش لوگ اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ مال مویشیوں سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں زیادہ بھیڑوں کی اموات سامنے آرہی ہے۔ جن پر ان کا زیادہ انحصار ہے۔
ایک تو ان بے حس حکمرانوں کی سمجھ نہیں آتی جب یہ ووٹ لینے جاتے ہیں تو ان کو یہ ووٹر سونے کی طرح لگتے ہیں اور جب ان کو اقتدار مل جاتا ہے تو ان سب کو گویا ریت میں دبا دیتے ہیں۔ جیسا کہ اب سندھ کے صحرائی علاقہ میں غریب عوام کے ساتھ دردناک حالات درپیش ہیں جس روٹی کپڑا اور مکان کے لئے یہ حکمران ووٹ مانگتے ہیں اقتدار میں آنے کے بعد وہی ان سے چھین لیا جاتا ہے۔ آج ان غریبوں کے پاس نہ چھت ہے نہ روٹی ہے اور نہ کسی قسم کی بنیادی سہولت میسر ہے۔
جن قوموں پر آفتیں بار بار حملہ آور ہوتی ہیں وہ اس کو قہر خداوندی سمجھ کر بیٹھ نہیں رہتیں۔ بلکہ ان کے دورس اور بہتر تدارک کے لئے کوشش بھی کرتی رہتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی قوموں پر آفتیں تو ضرور آتی ہیں مگر جانی اور بعض اوقات مالی نقصان سے ضرور کسی حد تک بچ جاتی ہیں بنگلہ دیش کی مثال سب کے سامنے ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ سیلاب ایک قدرتی آفت ہے اور ضرور آئے گا۔ مگر اب وہ اس سے بچنے کیلئے حفاظتی طریقوں پر اس طرح عمل کرتے ہیں کہ نقصانات پہلے کی نسبت کم ہوتا ہے۔
مگر پاکستان کے علاقہ تھر میں جاری قحط سالی کا یہ دورحکمرا نوں اور اعلی افسروں کی لاپر واہی عدم توجہی اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور یہ حکمران اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ ان کو صرف اپنی دولت جاہ وحشمت سے ہی پیار ہے۔ اس لئے کہ بہتر تدارک کی بجائے ابھی تک سیاست چمکانے کی فکر میں نظرآتے ہیں ۔قیمتی انسانی جانوں کی ان کو زرہ برابر بھی پرواہ نہیں ہے۔ اس لیئے کہ ان بھوک سے مرنے والوں میں کوئی بلاول، بختاور۔ آصفہ حمزہ جیسے بچے نہیں ہیں، جن کو فاقہ کشی کا مطلب تو کیا کبھی بھوک سے بھی یقینا شناسائی نہیں ہوئی ہوگی۔