تحریر: علینہ ملک خبر ہے کہ تھر میں مختلف بیماریوں کے باعث نایاب نسل کے 11 مور ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ اموات آج سے 5 روز قبل کی ہیں۔ جس کے بعد اب تک مرنے والے موروں کی تعداد 187 تک جا پہنچی ہے۔
صحرا ،دریا ،پہاڑ اور سمندر قدرت کی ایک انمول نعمت اور زندگی کی علامت بھی ہیں، پاکستان ان خوش قسمت ترین ملکوں میں سے ہے جسے قدرت نے ان تمام نعمتوں سے مالا مال فرمایا ۔صحرائے تھر یا تھر پارکر سندھ کے جنوب مشرق میں واقع تقریبا 2000000 مربع کلو میٹر پر محیط پاکستان کا سب سے بڑا صحرا سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے صحراﺅں میں 5 نمبر پر آنے والے اس صحرا کی آبادی پندرہ لاکھ کے قریب ہے۔ اور یہاں کے مکین غربت کی لکیر سے نیچے انتہائی سادہ اور بے بس زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ پاکستان کو بنے 49 سال گزر چکے ہیں مگر آفرین کے اتنے برسوں میں صحرا کے مکین آج بھی 49 برس پہلے جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،ایک طرف تو ہمارا ملک اتنی ترقی کر چکا ہے کہ دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور دوسری طرف اسی ملک کے ایک خطے میں بسنے والے باسی آج بھی غار وں کے دور میں جینے پر مجبور ہیں۔
صحرائے تھر میں حد نگاہ تک ریت ہی ریت نظر آتی ہے ،کہیں لہلہاتے کھیت اور ٹیلے اور کہیں تاریخی قلعے بھی نظر آتے ہیں ۔صحرائے تھر کو قدرت نے تیل ،گیس اور کوئلہ جیسی نعمتوں سے نوازا ہے پاکستان میں 80 فیصد کوئلہ کی پیداوار تھر سے پوری ہوتی ہے۔یہاں نایاب جانور ،پرندے اور رینگنے والے زہریلے کیڑے بھی پائے جاتے ہیں ۔ماضی قدیم سے لیکر آج تک صحرائے تھر میں زندگی کا انحصار بارش کے پانی پر ہی رہا ہے تھر میں چونکہ نہر یا دریا کا وجود ہی نہیں ہے لہذا یہاں کے مکینوں کا اصل اور واحد ذریعہ کنوﺅیں ہی ہیں ۔مگر ان کنوﺅں کا پانی کس قدر نمکین اور کڑوا ہو تا ہے یہ وہی لوگ جان سکتے ہیں جو وہاں مستقل رہنے پر مجبور ہیں ،اور بوند بوند کو ترستے ہیں ،پانی کتنی عظیم نعمت ہے اور انسانی زندگی کے لئے کیا معنیٰ رکھتا ہے یہ بات کوئی تھر کے باسیوں سے پوچھے ۔یہی وجہ ہے کہ صحرا کے مکینوں کے لئے بارش بہت بڑی نعمت اور رحمت ہے جس کے لئے وہ سالہا سال دعائیں مانگتے ہیں 1970ءتک تھر میں ہر سال بارشیں ہوا کرتی تھیں۔مگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ آہستہ آہستہ بارشوں کی شرح میں کمی آنے لگی اور گذشتہ دس سالوں میں تو اس میں اس قدر کمی آئی کہ اب دو دو سال گزر جاتے ہیں لیکن بارش نہیں ہوتی ۔چنانچہ صورتحال یہ ہے کہ تین سال سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط نے ڈیرے ڈال دئیے ہیں ،تھر کے باسیوں کی اصل دولت ان کے مویشی ہیں جو اناج اگانے ،پانی نکالنے،سفر کرنے اور دودھ دینے کے کام آتے ہیں۔
Thar Child Deaths
صاف پینے کا پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے چارہ ،اناج اور پانی کی شدید قلت ہوگئی ہے غذا اور صاف پینے کے پانی کی کمی کی وجہ سے تھری عوام کے بچے اور مویشی بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں ایک اندازے کے مطابق اب تک ۰۵۲،بچے بھوک ،پیاس،مناسب خوراک اور صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں ۔ان کی ہلاکت کا سبب کوئی بیماری یا وائرس نہیں بلکہ غذائیت کی شدید کمی ہے ۔سوچنے کا مقام تو یہ ہے کہ کیا صحرا میں رہنے والے انسان نہیں ،یا ان کا زندگی پر کوئی حق نہیں کے اتنے سالوں میں ان کے بنیادی حقوق تک کا خیال نہیں کیا گیا ،وہ اس جدید سائنسی دور میں بھی سڑکیں ،بس،اسکول ،بجلی ،گیس ،صاف پانی اور سب سے بڑھ کر صحت کی مناسب سہولیات سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔تھر پارکر میں موجود تحصیلیں ،مٹھی ،اسلام ،کوٹ ،ڈیپلو ،چھاچھرو ،ڈاہلی ،ننگر پارکر کے اندر تقریبا 23 سو گوٹھ ہیں جہاں قحط ،خشک سالی ،نمونیا ،ڈائریا ،اور دیگر پیٹ کے امراض کے سبب بچوں کی اموات کا ہونا معمول بن چکا ہے۔
۔یہاں ٹوٹل 4 تحصیل ہسپتال ،10صحت کے مرکز ،153 کے لگ بھگ ڈسپنسریاں موجود ہیں ۔مگر افسوس کے ان میں ادویات اور عملہ نہ ہونے کے برابر ہے ،چنانچہ مناسب طبی سہولیات نہ ہو نے کی وجہ سے بچوں کو قریبی شہروں میں علاج کی غرض سے لانا پڑتا ہے اور سڑکیں اور سفر کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام بھی وہاں کے مکینوں کے لئے آسان نہیں چناچہ لوگ اپنے معصوم پھول سے بچوں کو بے بسی کے ساتھ موت کے منہ میں جاتا دیکھتے ہیں اور کسی غیبی امداد کے منتظر رہتے ہیں کہ شاید ان کے عالی شان محلوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو ان کی بے بسی کا خیال آجائے ۔ مگر اس بے بسی کو کون جانے ہم جسے بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے لوگ کیا جا نے کہ بھوک کیا ہوتی ہے۔
جہاں انواع واقسام کی نعمتیں لوگوں کو اتنی وافر مقدار میں میسر ہوں کہ آدھا کھانا بچ جانے کے بعد ڈ س بن کی نظر کیا جاتا ہو ،جہاں شادی بیاہ اور دعوتوں جیسی تقریبات میں بے شمار ڈشوں کا مینیوں تیار کیا جاتا ہو اور پھر آدھا ضائع ہونے کی صورت میں کوڑے کے ڈھیر کی نظر ہو جائے ،جہا ں پانی کا بے دریغ استعمال کیا جائے اور جہاں لوگ اے سی کمروں میں آرام فرماتے ہوں وہ کیا جانے کہ شدید بھوک میں سوکھی روٹی کا ایک ٹکڑا منوسلوی ٰ سے کم نہیں ،پیاس کی شدت میں نمکین کڑوے پانی کے دو گھونٹ آب حیات ثابت ہوتے ہیں ،اور چلچلاتی دھوپ اور گرمی میں گرم لو دار ہوا ہی زندگی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
Food Shortages
آفرین ہمارے ان حکمرانوں کو جن کے نزدیک انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ،وہ کام صرف وہی کرتے ہیں جہاں سے ان کو اپنا مفاد نظر آتا ہو ،جہاں سے ان کو بھاری ووٹ ملنے کی امید ہو بھلا صحرا کی خاک ان کے کس کام آنی ۔پچھلے سال بھی کتنے بچے غذائی قلت اور مناسب نگہداشت نہ ملنے کی وجہ سے ایڑیا رگڑتے رگڑتے دنیا سے چلے گئے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔میڈیا اور اخبارات کے شور مچانے پر چند ایک دورے اور کچھ خیرات بانٹ دی گئی مگر کوئی باقاعدہ منظم نظام نہیں بنایا گیا تاکہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کیا جاسکے ۔اس سال پھر حالات پہلے سے بھی ابتر دکھائی دے رہے ہیں ،شدید غذائی قلت کے سبب اور مختلف بیماریوں کی وجہ سے 250 بچے موت کی وادی میں جاچکے ہیں اور نجانے اور کتنے جاتے رہیں گے ،مگر ہمیں اور جھمیلوں سے فرصت ہی نہیں کہ ان بے بس لوگوں کے دکھوں کا مداوا بھی کیا جاسکے ۔اگر ہماری حکومتوں نے صحرائے تھر کے لئے بھی ساتھ ساتھ کام کیا ہوتا تو آج وہاں کے لوگ بھی وقت ساتھ ساتھ آنے والی تبدیلیوں ،جدید سہولیات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہوتے۔
تحریر: علینہ ملک Writer Club (Group) Email: urdu.article@gmail.com Mobile No: 03136286827