تھر (جیوڈیسک) صحرائے تھر کی زمین پانی اور بچے دودھ کو ترس گئے، قحط سالی کے باعث بھوک نے انسانی زندگیوں کو نگلنا شروع کر دیا ہے، حکومت نے تھرپارکر کو آفت زدہ تو قرار دے دیا مگر متاثرین کیلئے مختص گندم محکمہ خوراک کے گوداموں میں سڑ رہی ہے۔ صحرائے تھر، جہاں انسانی زندگی بارش کی محتاج ہے، ابر رحمت برسے تو جل تھل ایک ہوجاتا ہے، جانوروں کیلئے چارہ بھی دستیاب ہوتا ہے اور انسانوں کو خوراک بھی، مگر دو سال سے بارش نہ ہونے پر تھرپارکر قحط سالی کا شکار ہے۔
جانوروں کے بعد بھوک و افلاس کے سائے انسانوں کی جانب بڑھنے لگے ہیں، غذائی قلت کا شکار معصوم بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر دم توڑ رہے ہیں، ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی کے سرکاری اسپتال میں گزشتہ تین ماہ کے دوران علاج کیلئے لائے گئے 121 بچے جاں بحق ہوچکے۔ دسمبر 2013 میں 42، جنوری 2014 میں 40 بچے ، فروری میں 36 اور مارچ کے ابتدائی پانچ دنوں میں 3 بچیاں اسپتال میں دم توڑ گئے۔
ایک ماہ میں بتیس بچے ہلاک ہوئے ہیں یہ تعداد انتہائی تشویشناک ہے جو قحط سالی ، خوراک کی کمی کے باعث ہے۔ بھوک و افلاس سے بچنے کیلئے لوگوں نے شہروں کی جانب نقل مکانی شروع کردی ہے، چار سے پانچ روز کے پیدل سفر کے دوران ماوٴں کو خوراک نہ ملنے سے نومولود بچے جاں بحق ہورہے ہیں۔
حکومت سندھ نے 31 جنوری کو قحط سالی سے متاثرہ افراد میں مفت گندم تقسیم کرنے کے لئے 60 ہزار بوریاں تھر پہنچائی تھیں جو اب تک محکمہ خوراک کے گوداموں میں پڑی ہیں۔ تھر میں قحط سالی نے اپنے خطرناک سائے پھیلا دئے ہیں اور یہ سائے رفتہ رفتہ جانوروں کو نگلنے کے بعد انسانوں تک پہنچ گئے ہیں ،جن کے تحفظ کے لئے تھری عوام حکومت کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔