تحریر: مزمل احمد فیروزی پورے پاکستان کو چھوڑ کر سندھ کے ایک ایسے خطے کی طرف عوام الناس کی توجہ دلانا جسکے بارے میں لوگوں نے ایک غلط رائے قائم کر رکھی ہو اسکی سب سے بڑی وجہ گوگلی صحافی (یعنی گوگل سے ڈھونڈنے والا قلم کار ) ہے۔ گوگل سے غیر تصدیق شدہ مواد حاصل کرنے والا یہ صحافی جو اور جتنا سامنے آتا ہے کی بنیاد پر تھر کے معصوم عوام سے متعلق ایسادانستہ مذاق لکھتا رہا کہ جسکا نقصان خود تھر کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔۔!! اپنے صحافتی دور میں ہر سال تھر میں پیاس اور بھوک سے سینکڑوں ہلاکتوں کی خبریں اور تصاویر خبروں اور کالموں کی زینت بنتے اس آس پر دیکھتا رہا کہ زندگی اور موت کے اس بھیانک کھیل کا مشاہدہ اپنی جاگتی آنکھوں سے کرونگااور یہ جاننے کی بھی کوشش کرونگاکہ اتنی خشک سالی اورقحط کے باوجود تھرکے عوام وہ جگہ چھوڑنے کو آخر راضی کیوں نہیں ہوتے اور ایسی کیا چیز ہے وہاں جو انہیں روکے رکھتی ہے۔ اسی تلاش میں پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے توسط سے تین روزہ دورے پر تھر جانے کا موقع میسر آیا۔ یہ کراچی سے تقریبا 625 کلو میٹردور سندھ کے جنوب مشرق میں 21 ہزار مربع کلو میٹرپر محیط دنیا کا تیسرا بڑا صحر ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم چلتاہے کہ تھر ہزاروں سال پہلے سمندرکاحصہ تھا ،تغیرات کے نتیجے میں آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے سمندر پانی کی کمی اور بارش نہ ہونے کے سبب ریگستان کا روپ دھارتا ایک عظیم صحرا کی شکل اختیار کر گیااور یہاں کسی سمندر کے وجود کی بات ایک خواب سا دکھائی دیتا ہے ۔۔!!پاکستان کا یہ سب سے بڑاصحرااپنے اندر قدرت کے کئی خوب صورت رنگ سمیٹے ہوئے ہے ،جہاں کہیں اڑتی ریت نظر آتی ہے تو کہیں لہلہاتے کھیت ،کہیں ٹیلے ہیں تو کہیں پہاڑ (جوقیمتی پتھر گرینائیٹ کا ہے) اور کہیں تاریخی مقامات(مندر ومساجد) تو کہیں نمک کی جھیل،،غرضیکہ قدرت کے دلکش مناظر کا شاہکار صحرا طبعی خصوصیات سے پوری طرح مزئین ہے۔۔!! یہ سندھ کاوہ خطہ ہے جو نہ صرف معدنی دولت سے مالامال ہے بلکہ جغرافیائی طورپر بھی اسکی اہمیت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ساڑھے تین سو کلو میٹر تک بھارت سے جڑا یہ صحرا بہت حساس گردانا جاتا ہے۔۔!!
Thar Village
1965 کی جنگ میں بھارت نے صحرائے تھر کے 65 دیہات پر قبضہ جما لیا تھا جبکہ 1971 میں تھرپارکر کے سینکڑوں گائوں بھارت کے قبضے میں چلے گئے تھے ۔ دلچسپ بات یہ کہ تھرپارکر دراصل دو نام یعنی تھر اور پار کا مرکب ہے جسکا مطلب پہاڑی علاقہ ہے، یہ ایک ضلع ہے جسے چار تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے ،جس میں مٹھی ، ڈیپلو، ننگر پارکر اور چھاچھرو شامل ہے ۔۔!! صحرائے تھر ماروی کادیس ،عثمان ڈیپلائی کی جائے پیدائش، مسکین جہان خان کھوسوکامدفن ہی نہیں بلکہ سولہ لاکھ سے زائد افراد کا مسکن بھی ہے،، یہاں ہندو اکثریت جبکہ مسلم اقلیت میں ہیں۔ یہاں کے عوام کا گزر بسر زیادہ تر مال مویشی اور گھریلو صنعت پر ہے جبکہ لوگ محنت مزدوری بھی کرتے ہیں جس کے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔ تھر کاموسم شدیدہوتا ہے ،گرمیوں میں سخت گرم اور سردیوں میں سخت سردہوتاہے جبکہ جون جولائی میں یہ صحرا آگ اُگلتا ہے۔ تھر میں چوماسہ کافی مشہور ہے جو چار مہینے رہتا ہے۔
صحر اکی خنک ہوائیں موسم کو خوشگوار بنا دیتی ہیں اور ان مہینوں میں پڑنے والی برسات سے شادابی اپنے سحرمیںجکڑ لیتی ہے،، برسات سے پہلے چلنے والی ہوائیں اس قدر تیزہوتی ہے کہ تناور درختوںکو بھی جڑ سے اکھاڑپھینک دیتی ہے۔۔!!تھر میں ریت اور مٹی کے بڑے چھوٹے ٹیلے ہیں جنہیں مقامی لوگ’ بھٹ یالسک’ کہتے ہیں۔ اس عظیم صحرامیںپائے جانے والے منفردنوعیت کے بے شمار درخت عام طور پردوسروں علاقوں میں نہیں پائے جاتے ۔یہاں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیاں کئی موذی امراض میں کام آتی ہے جبکہ کئی جنگلی پودے مال مویشیوں کو کھلانے کے ساتھ ساتھ لوگ سبزی کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔۔!!بارشوں کے بعد تھر میں بعض جگہوں میں چھانہہ (تربوز) خود بخود اُگ پڑتے جبکہ کڑوے گودے کے ساتھ خربوزے کی شکل میں دکھائی دئے جانے والا پھل کئی بیماریوں میں مفید تصور کیا جاتا ہے۔تھر میں آبادیاںطویل فاصلوںپرقائم ہیں ۔ ایک گوٹھ سے دوسرے گوٹھ تک کا فاصلہ سینکڑوں میل کی مسافت پر ہے۔ پر زیادہ ترگائوں بھٹوںکے دامن میں ،کہیں صحرائی درختوںکے جھرمٹ میں یا پھر کہیں ریگستانوں میں پائے جاتے ہیں ۔ تھر کے صحرا میں رہنے کے لئے بنائی جانے والی جھونپڑی کو ‘ چنرے ‘ کہا جاتا ہے۔
Thar Hut
یہ دس سے بارہ فٹ کے دائرے میں گندم کے بھونسے میں ٹاٹ یا روئی ملے مٹی کے گارے سے گول دیوار نما شکل میں تیار کیا جاتا ہے، گولدیوارکے اوپر لکڑیوں سے فریم بنایا جاتا ہے اورپھر فریم کے اوپر صحرائی گھاس کی چھتری نما چھت بناکر آہنی تار یا رسی سے باندھ دیاجاتاہے ، ہندو خاندان کا چنرا انتہائی آخری سرے پر ایک پینسل کی نوک کی طرح بنایا جاتا ہے جبکہ مسلمان چونرے کی چھت گنبد کی طرح گول رکھتے ہیں، اس طرح چونرے میں رہنے والوں کے مذہب کا باآسانی اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔ ،ہمیں بھی 8 سے 12 اور 400 چونروں والا گائوں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے ۔ چونرے اتنے خوب صورت دکھائی دے رہے تھے کہ ہم سمیت ہر آنے جانے والاانکے سامنے کھڑا ہو کر اپنی تصاویر بنواتے ہوئے فحر محسوس کررہا تھا ۔۔!! تھری عورتیں امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ انتہائی محنتی اور جفاکش ہوتی ہیں جو اپنے مردوںکے شانہ بشانہ مشقت کرتی نظرآتی ہیں ۔
تھر میں دو شادیوں کا رواج نہیں ہے۔یہاں خواتین کم عمری میں شادی کے باعث اپنی عمرسے بڑی لگنے لگتی ہیں اور صحیح خوراک نہ ہونے کی وجہ سے کمزوراورلاغر دکھتی ہیں جبکہ بعض علاقوں میں خواتین اآج بھی لال مرچ اور روٹی پر گزارا کرتی ہیں۔۔!! سبزیوں کی بات کی جائے تو یہاں کپاس، مرچ، گندم، جوار، تل،باجرہ اور اب پیاز،گاجر ، ٹماٹر اوراسپغول کی کاشت کی جارہی ہے ۔سبزیوں کی آبیاری کے لئے بہت سی جگہوں پر ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں جبکہ ڈیپلو میں کاشت بغیر کھاد کے کی جارہی ہے۔ تھرمیں ننگر پارکر، ڈیپلو، مٹھی، اسلامکوٹ میں صابروشاکر ماروئوں (تھر میں رہنے والوں کو کہا جاتاہے )کی سرزمین، موروں اور تلورکے مسکن ، کالے اور بھورے ہرن کی چراہ گاہیں۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ بھوک وافلاس کاشہرکہلائے جانے والے تھر کو طول وعرض پر پھیلے صحرا کو چھان مارنے کے بعد بھی ہمیں غیرملکی این جی اوز کی خودساختہ پیداکردہ پیاس، بھوک وافلاس کہیں نظر نہیں آئی۔۔!!
ہاں البتہ! وہاں کے لوگوں میں شعور اُجاگر کر کے اُنکا طرز زندگی بدلتے ہوئے احساس محرومی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ بقول قرنی کے “تھر میں کام کرنے والی تمام سماجی تنظیوں نے خدمت اورانسانیت کاڈھونگ رچا کرتھری عوام کی مجبوریوںکونیلام کیاہے اورانکے نام پرکروڑوںکماکر محض تجوریاں بھری گئی ہیں۔۔!! ایک محتاط انداز ے کے اعد ا د و شمار کے مطا بق پاکستان سمیت دنیا بھرکے ایک ملین سیا ح ہر سال اس فطری حسن کودیکھنے کے لئے اس صحرا کا رخ کرتے ہیں ۔ تھر کی اسی خوبصورتی کے پیش نظر حکومت پاکستان اس علاقے کو سیاحت کے فروغ کے لئے ترجیحی بنیادوں پر عملی اقدامات اُٹھائے تواس سے نہ صرف حکومت کے زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تھری عوام کی خدمت کرنے کا موقع بھی دستیاب ہوگا،پس ضرورت اک نظر التفات کی ہے۔۔!!