تحریر: شکیلہ سبحان شیخ حدِنظر تک پھیلی سُنہری ریت کی خوبصورتی کا دلکش منظر انسان کو اپنے سحر میں ایسے جکڑ لیتا ہے کہ چلتے چلتے آپ کے قدم خود بخود رُک جاتے ہیں۔ سر راہ مناظر کے رنگ دھیرے دھیرے نمایا ں ہو تے صحرائے تھر کو ایک پُر کشش بنا دیتے ہیں اور تھر کے لوگوں کی سادگی اور محبت روح میں اتر تی محسوس ہو تی ہے۔ بقول شاعر روح میں رچ بس گیا ہے ایسے کسی کا روپ اب کیا کریں گے ہم کوئی شاہکار دیکھ کر
تھر پاکر تقریباً 21000 کلومیٹر مربع میل پر پھیلا وسیع رقبہ ہے جسکی آبادی 15لاکھ سے زیادہ شُمار کی جاتی ہے ۔تھر پارکر ضلع کے دوسب ڈویژنز ‘مٹھی’ اور ‘ چھاچھرو ‘ ہیں ،جن میں چار تعلقہ ہیں جو مٹھی ،ڈیپلوں،چھاچھرو اور ننگر پارکرپر مشتمل ہیں ۔تھر کی سمت جانے والا تمام راستہ اتنا دلکش ہے کہ بارش میں اس کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے، بارش کے صحرا میں گر تے قطرے مٹی کی خوشبو اسقدرمہکا دیتے ہیں کہ انسان سب کچھ بھول کر اُس مہک میں محصور ہو کر رہ جاتا ہے، جبکہ جنگلی پودوں و پھولوں کی ایک مخصوص بھینی بھینی خوشبو اپنے اندر جذب ہو تی محسوس ہو تی ہے اور تمام تر تھکن ہوائوں میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
Thar
لہراتابل کھاتا راستہ گاڑی کو کبھی اونچائی پر لے جاتا تو کبھی آگے بڑھتی گاڑی کے ٹائرایک دم ڈھلوان سے پھسلنے لگتے ہیں جس سے خوف و تجسس سے ملتا جلتا منظر دکھائی دیتا اور تھر میں پھرتے اُونٹ ، پر ندے اور موران خوبصور ت مناظر کو مزید خوبصورت بنا دیتے ۔۔!!موروں سے متعلق تشویشناک بات یہ دیکھنے میں آئی کہ ایک پراسرار بیماری کے باعث موروں کی نسل میں کمی ہو تی جاری ہے، جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ مورکو پکڑاجائے تووہ فوراًمر جا تا ہے۔۔!!پانی سے بھرے مٹکے سروں پر اٹھاتی تھری عورتوں کے دلکش رنگوں سے مزئین چُنری، گج اور گھاگھرے قوس و قزح سے مشابہہ نظر آتے۔
گج اور گھاگھروںپر جھلملاتے ستارے ،دوپٹے کی اوٹ سے چہرے چھپائے اور کلائیوں میں سفید چوڑیاں پہنتی تھری عورتیں صحرائی بانکپن کی عکاس نظر آتیں۔ کلائی سے کہنی تک ”موہر ” اور کہنی سے سے کندھے تک پہنی جانے والی چوڑیاں ”بند” کہلاتی ہیں،یہ بندھن کی علامت تصور ہوتی ہیں اسی لئے بیوہ عورتیں انھیں پہننے کی بجائے اتار کر دیوار پر سجا دیتی ہیں۔۔!!لڑکیا ں جو چوڑیاں پہنتی ہیں انھیں ”گورلا”کا نام دیا گیا ہے یہ عام طور پر پلاسٹک ،عاج اور ناریل کے درخت سے بنائی جاتی ہیں یہ چوڑیاں پہلے زمانے میں ہاتھی کے دانت سے بنتی تھی۔تھر میں گھومنے کے دوران جگہ جگہ ‘ چونرے’ دیکھے جا سکتے ہیں جو دراصل تھری گھروں کی منفرد ایجاد ہیں ۔یہ جھونپڑی نماکشادہ کمرے ہوتے ہیں ،یہ اینٹیں، لکڑی اور مقامی گھاس پھونس سے صحراہی چھت کی شکل میں بنائے جاتے ہیں۔چھوٹی چھوٹی جالیوں سے آسمان نظر آتا ہے صحرہ کی سخت گرمی میں بھی یہ اندر سے بہت ٹھنڈا ہوتے ہیں۔
Thar Night
چونرے کے اندارقدم رکھتے ہی سکون اور ٹھنڈ کا احساس ہو تا ہے ۔بارش کی صورت میں پانی اندر نہیں ٹپکتا اور جیسے جیسے رات ہوتی جاتی ہے یہ مزید ٹھنڈے ہوتے جاتے ہیں۔ مٹھی شہر بڑے بڑے ریت کے ٹیلوں پر جانے کا اتفاق بھی ہوا جنہیںگڈی بھٹ کہا جاتا ہے۔ مٹھی شہر کا مکمل نظارہ یہاں سے نظر آتا ہے، جبکہ رات کا نظارہ ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے ستاروں نے اپنے جھر مٹ میں لے لیا ہو۔۔!! رات کو چلتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہو ائیں گویا کہ موسیقی سُنا رہی ہوتی ہیں ۔ مٹھی سے ننگر پا کر جاتے ہو ئے بے شمار کنوئیں نظر آتے ہیں جبکہ مٹھی روڈسے مختصر سی مسافت پر شاداب اور گرم نرم ریت زمین کے وجود سے اٹکھلیاں کھیلتی دکھائی دیتی ہے۔
گھنے صحرائی درختوںمیں گھرا گائوں جو ‘ماروی’ نامی عشق کی ایک داستان کی وجہ سے مشہور ہے ماروی کی کہانی کاوہ کنواں آج بھی تھر سے محبت اور چاہت کی داستان سُنا ر ہا ہے ۔۔!! تھر کے باسی ،زبان،لباس ،رہن سہن و مزاج کے حوالے سے آج بھی فطرت کے عین قریب محسوس ہو تے ہیںاور لو ک گیتو ں میں ریگستا ن کے پر کیف نظاروں کے رنگ ملتے ہیں۔تھر میں پائے جانے والے بہت سے مندراپنی منفرد طرزو تعمیر سے ہزاروں سال پرانی تہذیب کی نشاندہی کر تے ہیں۔ قدرتی حُسن چھلکاتا صحر ا آج حکومت کی بھر پور توجہ کا متقاضی ہے ۔اس کے لئے ملک کے دانشور، صحافی اور قلم کار اپنے قپلم کے زور سے خواب غفلت میں سوئے ارباب اختیار کو جگانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں ، جس کے بعدحکومت کی سنجیدہ کوشش بلاشُبہ تھری عوام اور علاقے کی خوشحالی کی جانب پہلا قدم شُمار ہو سکتی ہیں۔