تحریر: لقمان اسد ملک پر کئی بار بر سر اقتدار آنے والی پاکستان پیپلزپارٹی آج بھی صوبہ سند ھ میں بلا شرکت غیرے حکمرانی کی شطرنج سجائے بیٹھی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ملک میں دوسری سیاسی جماعتوں سے اس حوالے سے منفرد پہچان رکھتی ہے کہ اسکے منشور میں روٹی،کپڑا اور مکان کو اولین ترجیح کے طور پر ہمیشہ رکھا گیا۔ وہ مزدور کی آواز اٹھانے پر ملک بھر میں مقبول ہوئی۔
ملک بھر میں جب زیڈ اے بھٹو نے اپنے طوفانی دوروں کا آغاز کیا اور اپنی آگ برساتی تقاریر میں جس اندازمیں ملک کے غاصبوں کو للکارا تو ملک کے طول و عرض میں زیڈ اے بھٹو ایک انقلابی راہنماء کے طور پر شمار کئے جانے لگے اور پی پی پی ایک عوامی پارٹی کے انداز میں تیزی سے مقبول ہونے لگی۔
تب 1970ء کے عام انتخابات میں پاکستان کے لوگوں نے پی پی پی کے تمام امیدواروں کو اسطرح ووٹ ڈالے کہ جیسے دوسری جماعتوں کے امیدوار ان کے مد مقابل کھڑے ہی نہ کئے گئے ہوں اور پی پی پی کے مخالف امیدواروں کی صندوقچیاں ووٹوں کی پرچیوں سے یکسر آزاد اور خالی نکلیں۔زیڈ اے بھٹو نے وطن عزیز کو جو وجود میں تو آچکا تھا لیکن کئی برس سے ایک بے آئین ملک تھا کو آئین سے نوازا یعنی 1973ء کا متفقہ دستورکہ جس کی ابتک کئی بار دھجیاں بکھیری جا چکی ہیں اور اسے گویا لیرولیر کیا گیا ہے۔1973ء کا متفقہ آئین بھی بلاشبہ بھٹو کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔وطن عزیز کو ایٹمی ٹیکنالوجی سے نوازنا، پاکستان اسٹیل ملز کی بنیاد، شاہراہ ریشم کی تعمیر، ملک بھر میں کالجز، یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز کی تعمیر بھی زیڈ اے بھٹو کے کارہائے نمایاں میں شامل ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ پی پی پی کے بانی زیڈ اے بھٹو کے کارناموں اور ملکی تعمیر و ترقی کیلئے کی جانے والی کاوشوں سے پی پی پی کی موجودہ قیادت کچھ سیکھنے کی کوشش کرے گی؟۔
Qaim Ali Shah
پی پی پی کی موجود ہ قیادت اس حوالے سے اپنی کارکردگی پر غور کرے کہ آج ملکی مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے اور ملکی تعمیرو ترقی میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے وہ کہاں کھڑی ہے؟پی پی پی کی موجودہ قیادت کو سوچنا ہوگا کہ آخروہ کیا عوامل ہیں کہ جن کی بنا پر جھونپڑیوں میں بسنے والوں کے دلوں سے پی پی پی نکلتی جارہی ؟ مزدوروں کے گھروں سے پی پی پی کے جھنڈے اترتے جارہے ہیں؟ آج فروٹ بیچنے والوں نے اپنی ریڑھیوں پر سے جماعت کے جھنڈے اتاردئیے ہیں؟ اس لئے کہ قیادت عملی طور پر اپنی کاز،اپنے نصب العین اور اپنے منشور سے ہٹ گئی۔ اب کسی مزدور کو، کسی ہاری کو،یا کسی بے روزگار نوجوان کو اس کو اپنا حق دینا تو درکنار قیادت نے تو مزدور، ہاری، کسان ،ریڑھی بان اور ملک کے پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی خاطر آواز اٹھانا ہی بند کر دی ۔قومی اسمبلی میں حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے بجائے ن لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نبھانے میں پیش پیش ہے ۔عین ناک نیچے یعنی سندھ کے علاقہ تھر میں درجنوں بچے بھوک کی وجہ سے بلک بلک کر دم توڑ رہے ہیں اورخادم اعلیٰ سائیں مخدوم پیر حضرت قائم علی شاہ کو جب کبھی 6ماہ بعد خیال آتا ہے تو وہ وزیروں کی فوج ظفر موج کو لے کر اور ایک ٹرک منرل واٹر کا محض اپنے لئے لوڈ کرکے تھر کا دورہ فرماتے ہیں۔گندم وہاں تقسیم کئے جانیکا اعلان فرمایا تو جناب کے وزیر شذیر اپنا پیٹ کھول کر بیٹھ گئے اور باقی ماندہ گندم سٹوروں میں گل سڑ رہی ہے۔
یقین جانئے تھر کے بچوں کی آواز سن کرہم کوسوں دور بیٹھ کر تھرتھراتے ہیں ۔تھر کی بوڑھی مائوں کی سسکیاں،آہیں اور آنسو ہمارے لئے باعث ندامت اور باعث شرم ہیں مگر تمہارے لئے کیوں نہیں؟سید یوسف رضا گیلانی فرماتے ہیں کہ نوجوان قیادت بلاول کی شکل میں صرف پی پی پی کے پاس ہے بلاول کی قیادت کی بات ہے تو عرض کرتا چلوں کہ محض بڑھکیںمارنے ”ٹوئٹ ”کرکے دوسروں پر طنز کے تیرو نشتر چلانے سے ملک و قوم کی خدمت نہیں ہوتی اور نہ ہی پارٹی کی مقبولیت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔بلکہ آپ جس پارٹی کی قیادت سنبھال چکے ہیں ا ب سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اس میں گھسے مفاد پرستوں کا صفایا کریںاور پی پی پی کے اصلی جیالوں کو ڈھونڈ نکالیں۔
لاہور میں تب ڈیرے ڈالیں کہ تھر کے صحرا کا ہر بچہ بلاول کی طرح زندگی کا ہر لطف اٹھا سکے اور اسے انسانی زندگی کی تمام تر ضروریات میسر ہوں۔ جناب یوسف رضا گیلانی !جناب بلاول بھٹو!جب تک تھر کے بھوک سے مرتے بچوں کی کہانی تمہارا پیچھا کرتی رہے گی ،جب تک ان بھوک سے بلکتے بچوں کی آہیں، سسکیاں اور آنسوؤںتمہارے اوپر قرض ہیں تب تک تم اصلی پیپلزپارٹی نہیں بن سکتے،تب تک تم زیڈ اے بھٹو اور اپنی ماں محترمہ بینظیر بھٹو کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہیں کرسکتے ۔کیا بہتر ہوتاکہ کرکٹ کے ایک سابق کپتان کو لاڑکانہ میںجلسہ عام کی اجازت نہ دینے اور پی ٹی آئی پر تنقید کرنے کی بجائے آپ اپنی صف میں بیٹھے اور بیٹھی قائم علی شاہوں، رحمان ملکوں،یوسف رضا گیلانیوں،اویس مظفر ٹپیوں،شرمیلا فاروقیوں، شیری رحمانوں اور شازیہ مریوں کو سنبھالتے اور ان کی کلاس لیتے اور لاہور کے بلاول ہائوس میں ڈیرہ ڈالنے کی بجائے تھر کے صحرا میں بھی اپنا ایک” بلاول ہائوس” بناتے۔کیا ملک ریاض قوم پر ایک اور احسان کریں گے کہ وہ تھر کے صحرا میں بھی ایک” بلاول ہائوس ”تعمیر کرکے جناب کو چیئرمین پی پی پی آصف علی زرداری کو گفٹ کریں گے؟