تحریر: فاروق احمد بودلہ چند غریب ممالک کی مخدوش صورتحال سے قطع نظر، اقوامِ عالم کی ترقیء تند رفتار کا جائزہ لیجئے اور تھر میں برپا انسانی المیہ بھی ملاحظہ کیجئے۔اس زبوں حالی کے بارے میں کیا گماں کیجئے جو اس قدر جلاد صفت ہو چکی کہ محض جرمِ ضعیفی سزاوارِ تختہ دار ہوا۔ کم نصیبی کا شوقِ رقص تو دیکھئے، کوچہ و بازار میں سرِ عام جھوم رہی ہے، کشتگانِ تھر اسی رقص سے محظوظ ہو رہے ہیں اور وہ قحط سالی کی اس تماشہ نگری پرطنز یہ مسکرا رہی ہے، ایسا منظر بیاں کرنے سے اظہار ِ معذوری بہتر کہ جہاں شکستہ پا زندگی موت کی طلبگار ہو اور موت خوفِ مرگ سے لرزہ براندام، جسکی وحشت سے تھر بھی تھر تھر کانپ رہا ہے۔
کوئی درد ہو تو اس کیلئے دوا درکار ہوتی ہے مگر اہالیانِ تھر کی شومئی قسمت کا اندازہ کیجئے کہ برسوں سے محشرِ خشک سالی کا سامنا ہے مگر تاحال مداوا نہیںہو سکا۔ ترقی یافتہ ممالک ایک طرف ،پاکستان کے دیگر علاقوں سے تھر کا موازنہ کیجئے،معلوم ہو گا کہ سو سال پیچھے ،جدید دور کی آسائشوں کو حسرتِ موہوم سمجھ رہے ہیںیا کوئی خواب جو تعبیر سے تہی دامن، بے رحم بھوک نے بہت سے تھریوں کو جلا وطنی پر مجبور کر دیا،ضعف میں مبتلا بیشمار غربأایسے بھی ہیں جو مسافت کی صعو بتیں برداشت نہیں کر نے کے متحمل نہیں ،جن کے بدن قلّتِ غذا سے اسقدر نحیف ہو چکے ہیں کہ حرکت کرنا محال ہے چنانچہ خشک سالی کا بے ہنگم عفریت تھر کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے،معصوم بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے، ترقی و خوشحالی کے حکومتی دعوے ”سندھ کھپے” ناجانے کس دشت میں بھٹک گئے ،سرزمینِ تھر بیقراری سے منتظر ہے۔
حالیہ اطلاعات کیمطابق گزشتہ 24روز میں 108بچے جاں بحق ہو چکے،مٹھی سمیت دیگر ہسپتالوں میں 200سے زائد زندگی کی رمق تلاش کر رہے ہیں ۔علاقہ مکینوں کا واحد معاشی سہارا مویشی بھی جاں گنوا رہے،اس پہ والیء سندھ کا فرمان”تھر میں قحط سالی کی صورتِحال نہیں ہے”کیا کہنے ،مزید کہا تھر میںہلاکتوں کا سبب کمزوری اور کم عمری کی شادیاں ہیں،بابا جی سے کون پوچھے کیا جانور بھی کم عمری کی شادی کی بھینٹ چڑھے؟تھر قحط سالی نیا مسئلہ نہیں بلکہ دیرینہ ہے،ہر چند سال بعد دکھیارے لوگ اسی قیامت سے دو چار ہوتے ہیں۔
Tharparkar Drought
پینے کا صاف پانی ،مناسب خوراک ،صحت جیسی بنیادی ضروریات ان سے روٹھ جاتی ہیں،گزشتہ برس 3جنوری کو شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کیمطابق تھر میں مسلسل تین سالوں سے خشک سالی ہے، 2014 کے آخر تک 0 65 بچے زندگی کی دوڑ میں مات کھا چکے ، غذائی قلت کے باعث کئی خطرناک بیماریاں جنم لے چکی ہیں،جو مستقبل قریب میں قبرستان کا پیش خیمہ ثابت ہونگی(اب ثابت ہو رہا ہے)حکومت کے ناقص انتظامات نے آفت کی شدت میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ FIOH تنظیم کے چیئر مین ڈومینک سٹیفن کا کہنا تھا کہ ”شروع میں گورنمنٹ نے گندم کی متاثرین کو فراہمی پر توجہ دی مگر بعد میں یہ عمل سست روی شکا ر ہو گیا”سست و تیز الگ بات ،متاثرین میں امدادی اشیاء کی فراہمی میں نچلے طبقے کے ملازمین نے جس بے حسی ،حرص و لا لچ کامظاہرہ کیا ،انسانیت پر نا دھلنے والا داغ تھا۔
جب لوگ بھوکے پیاسے مر رہے تھے،انتظامیہ کے لوگ اشیائے خوردنی سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف تھے،ایسے ایسے حربے استعمال کئے رذیل پن بھی شرما گیا،مرے ہوئے یا جعلی لوگوں کی لسٹیں بنا کر سامان خود وصول کرتے رہے ،اس سے قبل بھی ساٹھ ہزار بوری گندم بھی بددیانتی کی نذر ہو گئی تھی،غربأ ایک ایک دانے کو ترسے،سو ہمارے ملک کے خزاں بخت لوگوں کیساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ آفت ”خدمت گزاروں” کے تعاون سے مزید بوجھل ہو جاتی ہے،محسنوں کی سرزمین پر جہاں احسانات و کرامات کے سلاسل دراز ہوئے وہاں مسیحا بھی کسی سے پیچھے نہ رہے،ڈاکٹرز اور پیر امیڈیکل سٹا ف مریضوں کیلئے دائمی استراحت کا بندوبست کرتے رہے۔
چشم کشا حقائق بیان کرتے ہوئے تھر ریلیف انسپکٹر جو حاضر سروس جج بھی ہیں،4نومبر2014کو کہا” صحت کے اعتبار سے تھر کی مجموعی صورتحال تسلی بخش نہیں،سٹاف کی شدید کمی ہے،ہنگامی بنیادوں پر بھرتی ڈاکٹروں نے جوائننگ نہیں دی،کئی ڈاکٹرز نے مرضی سے تبادلے کروالئے،آرتھوپیڈک نہیں،ایمبو لینسز کی کمی ہے،لیبارٹریز کی سہولت نہیں،سرکاری ڈسپنسریوں میں زائدالمعیاد ادویات ہیں” اُسوقت کی صورتِ حال کا جائزہ لیجئے اور موجودہ المیہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
حالات کی تلخی ویسی ہی ،ہسپتالوں میں یا تو سامانِ علاج میسر نہیں ،اگر ہے تو باہر پڑا ہوا گرد سے اٹا ہوا بیکار ہو رہاہے،سو اس عرصہ میں غریبوں کی آہ و بکا سننے کا خیال کسی کو نہیں آیا،کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ قیمتی وقت سے چند گھڑیاں اس انسان نما مخلوق کی جانب بھی جواپنی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں،مجال ہے کسی نے اصلاحِ احوال کا سوچا بھی ہو، ہاں عظیم المرتبت اور کہنہ مشق وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ کے فلسفہ سے معطر بیانات ضرور سامنے آتے رہتے ہیں،تھریوں پر گزرنے والے گزشتہ قہر پر بھی موصوف نے بھاری بھر کم منطق پیش کی تھی کہ بچوں کی اموات غربت سے ہوئی ہو گی ،بھوک سے تو کوئی بھی نہیں مرا،یعنی غربت اور بھوک کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، مؤقف پر مزید زور دیتے ہوئے کہاکوئی ایک بچہ دکھا دو جو بھوک سے مرا ہو، جب سنا تو تشفّی ہوئی کہ وطنِ عزیز عظیم فلاسفروں اور دانشوروں سے تہی دست نہیں ہوا،ایک عالمِ تشنہ لب ہنوز ان کے فیوض و برکات سے اپنی تشنگی سے تسکین پا رہا ہے۔
Tharparkar Children
ابھی کچھ دن پہلے ہی کوارٹروں کے مکینوں نے بصد شکراسمبلی کے باہر حکومتی عہدیداروں کے خلوص کا میڈیا کے سامنے تذکرہ کیا جن کے مسکن اسمبلی ارکان کی پارکنگ کیلئے مسمار کئے گئے ہیں، اسی طرح سندھ کے مکین بھی ایک عرصے سے گنج ہائے گراں مایہ سے پیہم استفادہ کر رہے ہیںاور خصوصاً تھر کے ساکنین ۔معلوم نہیں یہ گنجینہء لطف و کرامات کب تک قوم کوکب تک سکتے میں رکھے،کیونکہ ہمیں رینجرز اختیارات کم کرنے کی فکر سے فرصت نہیں کہ ہم بدعنوانی میں لپٹے ہوئے اپنے بدن کو بچائیں یا تھر کے عیاش لوگوں کے لوازمات پورے کریں۔
تھر کی یہ تشویشناک صورتحال سب کے سامنے ہے،دو سال پہلے بھی امدادی کارروائیاں تیز کی گئیں نہ حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدامات کئے گئے جو انکی مشکلات کافور ہوتیں،اور اب بھی صورتحال نہایت پریشان کن ہے ،علاقے میں امدادی کام ناکافی او ر سست رو ہیںجن کو پھرتی اور شتابی کی مہمیز لگنا ناگزیر ہے،کچھ علاقوں میں پانی کے پلانٹ لگ چکے ،ابھی بہت سے علاقے اس سے محروم ہیں،غلط مینجمنٹ آفت کو مزید بڑی افتاد میں بدل رہی ہے،ان علاقوں میںپانی و ادویات جیسی سہولیات پہنچائی جا رہی ہیں جہاں نسبتاًکم ضرورت ہے،امدادی اشیأتقسیم کرنے کی بجائے خورد برد ہو جاتی ہیں یا پھر پڑی پڑی خراب ہو جاتی ہیں،2014میں بھی تین لاکھ پانی کی بوتلیں خراب ہو گئیں مگر تقسیم کرنے کی زحمت نہیں کیگئی،سو اس سار ے منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے میڈیا میں اربابِ اختیار کے تساہل اور مجرمانہ غفلت بارے چرچا ہوا،اخبارات میں کالم لکھے گئے۔
فیچر چھاپے گئے،ٹی وی چینلز پر خبریں اورپروگرامز میں تبصرے کئے گئے،اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے مگر ذمہ داران تھوڑی بہت امدادی کارروائیوں کو شمار کر کے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں مگر کیا تھر کے حالات معمول پر آگئے؟ کیا معصوم بچوں کی اموات کا بے رحم سلسلہ رک گیا؟کیا لوگوں کو غذائی قلت کے عذاب سے مکمل نجات مل چکی ہے؟کیا اہالیانِ تھر کو انکے ذریعہء معاش چھن جانے پر انکی مالی تلافی کر دی گئی ہے؟کیا انکو صحت جیسی بنیادی سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں؟کیا وہ مکمل طور پر بحال ہو چکے ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیںجن کے بارے میں ہمارے حکمران طبقے کے بھر پور التفات کی ضرورت ہے مگر حیف ، انھیں ابھی اس بات میں ابہام درپیش ہے کہ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں یا غربت سے۔