قدرتی آفات ہمیشہ سے انسانی زندگی کا حصہ رہی ہیں۔اسی طرح سانحات اور حادثات ہمیشہ سے مختلف قوموں کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں۔ پاکستان کی اگر بات کی جائے تو یہاں بھی اس قوم کے ساتھ وقفے وقفے سے کئی بڑے سانحات پیش آئے ۔ان میں زلزلے، سیلاب، بارشوں کا اس قدر ہونا کی کاروبارِ زندگی کا رک جانا، طوفانی ہوائوں سے شہروں کا نظام درہم برہم ہو جانا، قحط سالی وغیرہ وغیرہ۔ ان سانحات میں اشیاء زندگی کے علاوہ انسانی جانوں کا بھی اموات کی صورت میں وافر مقدار میں نقصان ہوتا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان سانحات کے گزر جانے کے بعد سب سے پہلے ہمارے سیاستدان فوراً دکھاوے کے میدانِ عمل میں اتر آتے ہیں۔ آخر ویلفیئر اور امدادی ٹیموں کو انہوں نے ہی تو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔
آج کل قحط کی لپیٹ میں آئے سندھ کے علاقے تھر کے باسیویں کی زندگیاں جیسے سسک سسک کر جان دینے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ روز اخبارات میں ایک اور سرخی بن گئی کہ بھوک اور پیاس نے مزید 5 بچوں کی جانیں لے لیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 219 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اتنے دن گزرنے کے باوجود تھر کے دور دراز علاقوں میں گندم اور امدادی راشن نہیں پہنچ سکا۔ جس کی وجہ سے ہزاروں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر بڑی عجیب بات کہ ایک طرف اموات ہیں جو مسلسل ہورہی ہیں اور دوسری طرف ہمارے سیاستدان ہیں کہ جو ان اموات پر مسلسل تبصرے، تجزیے اور خود کو الزامات سے بری کرنے کی تقاریر میں لگے ہوئے ہیں۔
Qaim Ali Shah
وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے سندھ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تھر میں اموات کی صورتحال کے حوالے سے حکومت سندھ اور اس کے کسی افسر کی کوئی کوتاہی، غفلت یا نااہلی نہیں ہے۔ خشک سالی اور قحط کے اثرات سے اموات نہیں ہوئیں۔ اگر ایسا ہوتا توبچے ہی اس کا شکار کیوں ہوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ خشک سالی سے باخبر تھے اور اس کے لئے انتظامات مکمل کرلیے تھے۔ جبکہ وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے میڈیا پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ موصوف وزیر اعلیٰ اور وزیر اطلاعات سندھ کی باتوں سے ایسے لگتا ہے کہ جیسے سندھ حکومت کا اس میں ذرہ برابر بھی قصور نہیں ہے۔ تھر میں ہونے والی اموات کی ذمہ داری ان پر نہیں بلکہ اس قوم پر عائد ہوگی جو ابھی تک روئے وجود میں نہیں آئی۔
موصوف وزیر اعلیٰ جانتے ہیں کہ جب یہ سب کچھ ہوگیا ہے اور منگل کو اسمبلی میں انہوں نے پرجوش خطاب بھی کرڈالا ہے تو پھر تھر کے عوام بھوک و افلاس کے مارے نقل مکانی کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟ مزید 5 بچوں کی اموات کیوں ہوئی ہیں؟ اس تحریر کے چھپنے تک نہ جانے مزید کتنی جانیں ضائع ہوچکی ہوں۔ مگر ہمارے اعلیٰ عہدیدران کو تو اپنا دفاع کرنا آتا ہے۔ انہیں کسی معصوم کی جان سے کیا لینا دینا۔ جبکہ وزیر اطلاعات سندھ کو خود میڈیا سے پتا چلا کہ ایسا بھی ہورہا ہے ورنہ وہ تو آج بھی کہہ رہے ہوتے کہ ہمیں تو خود کو نہیں معلوم ، میڈیا نے ہمیں بتایا ہی نہیں ہے… وغیرہ وغیرہ۔ اب جب میڈیا نے اپنی ذمہ داری ادا کردی اور حکومت کی نااہلی پر انگلیاں اٹھنے لگیں تو انہوں نے میڈیا کو مورد الزام ٹھہرا دیا۔ ہم زمانہء قدیم سے سنتے اور پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ زندگی گزارنے کیلئے تین بنیادی چیزیں انسانی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ ہوا، پانی اور کھانا۔ انکے بغیر انسان کا وجود ممکن نہیں۔ہمارے لئے تو یہ عام سی بات ہے کیونکہ یہ چیزیں نہ صرف با آسانی ہماری دسترس میں ہیں بلکہ ہم ان چیزوں کا ضیاں دل کھول کے کرتے ہیں۔لیکن اس کی اصل اہمیت ان لوگوں سے پوچھی جائے جنہیں یہ چیزیں میسر نہیں۔
تھر میں پیش آنے والے سانحے سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔خوشی اس بات کی ہے کہ کراچی سمیت پاکستان کے تمام ممالک سے عوام فنڈز جمع کر کے وہاں کے لوگوں کیلئے کھانے اور پینے کی اشیاء وافر مقدار میں پہنچارہے ہیں۔ جو وقتی طور پر انکے لئے بے حد کارآمد ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ تھر میں قحط سالی ہر سال ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں الخدمت فائونڈیشن، فلاح انسانیت فائونڈیشن ، سرکاری و غیر سرکاری ادارے سرمایا دار طبقہ اپنی بساط کے مطابق انہیں ریلیف پہنچا رہے ہیں۔ ہر سال وہاں سینکڑوں افراد کی جانیں قحط سالی کی نظر ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس بار میڈیا پر اتنا شور مچا؟ میڈیا پر اس حوالے سے خبریں نشر ہونے کے بعد بیشتر صحافی وہاں دوروں کی غرض سے گئے۔ دوروں کی بات کی جائے تو اس معاملے میں ہمارے حکمران ماہر ہیں ،پھر چاہے وہ دورہ امریکہ کا ہو، چائنا کا ہو یا پھر تھر کا۔ لیکن ان دوروں سے کیا فرق پڑا ،وہ نتائج اب تک سامنے نہیں آئے۔
Thar
ہم انسانوں سے ہمدردی تو کر سکتے ہیں مگر کسی انسان کا درد اس وقت تک مکمل محسوس نہیں کر سکتے جب تک ہم خود اس درد سے نہ گزرے ہوں، بالکل اسی طرح شاہانہ زندگی گزارنے والے ہمارے یہ حکمران اس وقت تک تھر کے لوگوں کادرد نہیں سمجھ سکتے جب تک وہ خود قحط کا شکار نہ ہوئے ہوں۔ مگر حکمرانوں کیلئے ایسا سوچنا بھی انکی توہین کے مترادف ہوگا۔ اب وقت اپنے یا کسی اور کے دست و گریباں ہونے کا نہیں ہے۔ بلکہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ تعاون کرنے کا ہے۔ ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا ہے۔ اس سلسلہ میں ہم سب کی یکساں ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سیاسی اکائیوں سے نکل کر صرف ان کے لئے سوچیں، ان کی مدد کریں، انہیں ضروریات زندگی مہیا کریں۔ اگر آج بھی ہم اموات پر سیاست کرتے رہے تھے اور ان معصوموں کی طرف نہ دیکھا تو پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ
ذرا تم غور سے دیکھو، کہیں جو میں نظر آئوں مجھے بھی مطلع کرنا، بہت عرصہ سے غائب ہوں