تھر کا قحط

Tharparkar

Tharparkar

اکیس ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا صحراے تھر پارکر دنیا کا تیسرا بڑا صحرا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے دو حصوں میں منقسم ہے ۔ اس کا ایک حصہ” تھر” اور دوسرا حصہ ”پارکر ” پہاڑی ہے ۔مسلمانوں کے ساتھ ہندئووں کے کئی قبیلے یہاں آباد ہیں ۔چھوت چھات کی وجہ سے ایک قبیلہ دوسرے قبیلے سے منفرد ہے۔ ایک دوسرے کا کھانا کھانا تو دور ایک دوسرے کے برتن کو مس کرنے سے وہ بھرشٹ ہو جاتا ہے۔ تھرپارکر کی 15 لاکھ سے زائد آبادی اور30 ہزار دیہات ہیں۔

تھر پارکر کی زندگی کو کوئی شخص شاید الفاظ ، جملوں ،تحریر اور تقریر میں سمجھ نہ پائے ۔اگر ہم کہیں کہ تھرپارکر میں لوگوں کے پاس گھرہیں تو ایسا نہیں ہے۔ وہ گھاس پھوس کی جھونپٹریوں میں صدیوں سے رہتے چلے آرہے ہیں۔باہر سے نگاہ ڈالتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسی جھونپٹری میں تو جانور بھی رہنا پسند نہ کریں ۔تین چار پرانی چادریں اور دس بارہ شکستہ برتن ان کی کل کائنات ہیں ۔یہاں کراچی اور لاہور جیسی کارپٹ شاہرائیں اور عمدہ رنگ ونسل کی چمکتی دمکتی گاڑیاں بھی نہیں ہیں ۔لوگ آج بھی پیدل سفر کرتے ہیں ۔ سکول نام کی اس صحرا میں کوئی چیز نہیں ہے ۔ آج بھی یہ کیفیت ہے کہ جس گوٹھ میں کوئی عورت پیدا ہوئی ساری زندگی وہیں گذار کر مر گئی۔ یہاں لوگوں نے کبھی لائٹ نہیں دیکھی ۔ اتنے پیسے نہیں کہ رات کوگھرمیں چراغاں کر سکیں۔تھرمیں عورت کی زندگی کتنی کٹھن اوردشوار ہے اس کااحساس عورتوں کے عالمی دن منانے اوران کی آڑمیں عیاشیاں کرنے والے نہیںکرسکتے۔

تھرمیں عورت صبح سویرے پانچ پانچ مٹکے اٹھائے پانی کی تلاش میں نکلتی ہے اور بمشکل ڈھلتی دوپہرننگے پاؤں تپتے صحرامیں جھلسادینے والی لُوکاسامنا کرکے گھر پہنچتی ہے۔ ہم نے ننگرپارکرکے ایک گاؤں کیھڑی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا جس تالاب سے عورتیں پانی بھررہی تھیں ‘کتااس میں اشنان کرکے باہر آرہا تھا۔ پانی اتنا آلودہ تھا کہ ا س میں ہم اپنے پاؤں ڈال دیں توہم کہیں ہمارے پاؤں گندے ہوگئے ہیں۔یہاں روزگار کاکوئی سلسلہ نہیں ہے۔یہ توصرف گھاس کا انتظار کرتے ہیں’ان کے جانور زندہ رہنے کے لیے گھاس کھاتے ہیں’جب گھاس نہیں توپھرقحط اوربھوک وافلاس ان کے جانور کھاجاتی ہے۔ اس وقت جو بیماریاں ان پر حملہ آور ہیں’ان میں سب سے بڑی بیماری بھوک ہے۔جس نے انہیں لاغر ڈھانچے بنادیاہے۔

قابل غوربات یہ ہے کہ بھوک بچے میں نہیں بلکہ بچے کی ماں میں ہے۔ جو ماں کبھی اچار اورکبھی نمک مرچ کوجوہڑ کے آلودہ پانی میں گھول کر پیٹ کی آگ بجھائے گی وہ بچے کوخوراک کیسے مہیاکرے گی۔

Famine

Famine

قحط سے جب بیماریاں پھوٹیں توبرسوں سے ویران ہسپتال مریضوں سے بھر گئے۔ اس سے قبل ماجرا کچھ اس طرح تھاکہ جب کسی بڑے نے یہاںآناہوتو حیدرآباد اور کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر لائنیں باندھے کھڑے ہوتے ۔ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں نومولود بچوں کی نرسری بنی ہوئی ہے۔ یہاں کامنظر دیکھ کر مضبوط اعصاب کے مالک کاانگ انگ لرز جاتاہے۔ یہاں ایک ایسابچہ دیکھاجسے اس دنیامیں آئے آٹھ ماہ ہوچکے تھے مگروہ ایک دن کے بچے سے بھی بہت چھوٹا لگتاہے۔ قحط نے انسانوں کے ساتھ جانوروں کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہزاروں بھیڑ’بکریوں کے ریوڑ موت کے منہ میںچلے گئے ہیں۔جب قحط اوراموات سے پورے ملک میں تہلکہ مچ گیا توفلاح انسانیت فاؤنڈیشن دیگرفلاحی اداروں کے ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت میں آن موجود ہوئی۔ فوج کاکردار سب سے عمدہ اورقابل تحسین رہاہے۔ بلوچستان کے حالیہ زلزلہ اور تھر کے قحط میں فوج کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔

فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (FIF)تھرمیں2000ء سے موجودہے۔ FIF نے سب سے پہلے یہاں پینے کے پانی کے منصوبے شروع کیے توبہت سی این جی اوز راستے کی دیوار بن گئیں ۔بظاہرجن کی پہچان مشنری ہونے کی ہے مگراندروں تاریک ترہے۔ یہ لوگوں کو ریلیف کی آڑمیں سودی قرضے دیتے ہیں۔ دنیامیں اتنی بڑی شرح سود پرکہیں بھی قرضہ نہیں دیاجاتاجوقرضہ اس وقت تھرکے عوام کوجھیلناپڑا۔ یہ قرض اگلی نسلوں میں منتقل ہوتا رہتاہے۔ مگرجوں کاتوں رہتاہے۔اس قرضے نے تھرکی عوام کوماراہے۔

فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے یہاں اب تک 500سے زائدواٹر پروجیکٹ مکمل کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگFIFکے کارکنان کااحترام کرتے ہیں۔ FIF نے ان گنت بار میڈیکل کیمپ لگائے’ آپریشنز کیے۔ بچوں کی تعلیم کے لیے کام کیا۔ تھرکے بہت سے بچے جماعة الدعوة کے سکولوں اورمدارس میں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔یہاں کپڑے اورگاہے بگاہے نقدرقوم تقسیم کیں۔ موجودہ قحط میں امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسرحافظ محمدسعید کاخصوصی پیغام ماٹو کی حیثیت رکھتاہے کہ جس طرح مسلمانوں کی خدمت کی جائے’ایسے ہی ہندؤوں کا خیال رکھاجائے۔ ذات اورقوم کی تقسیم سے ماورا ہوکر کام کیاجائے۔

Hafiz Mohammad Saeed

Hafiz Mohammad Saeed

حافظ محمد سعید نے ہر ہفتے پانچ ہزار پیکٹ خوراک تقسیم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اسی طرح2014ء کے آخرتک ایک سوکنویں بنانے کاہدف ہے۔ جن پر کام شروع ہوچکا ہے۔ تھرپارکر کی 35یونین کونسلوں میں گوٹھ گوٹھ میڈیکل کیمپ جاری ہیں۔14مارچ تک پندرہ ہزار مریض چیک کیے گئے۔ FIFکی میڈیکل ٹیم ایک دوردرا ز گوٹھ میں چار کلومیٹرپیدل سروں پرادویات کے بنڈل رکھے شدید گرمی میں پہنچی۔بچوں کی خوراک کے لیے دودھ’جوس’انرجی بسکٹ’ منرل واٹر’ORS اور نرم غذاؤں کابندوبست کیاگیا۔ لواحقین میں روزانہ چاول پکاکر تقسیم کیے گئے۔ تھرپارکر کے موجودہ قحط سے جہاں تشویشناک صورتحال پیداہوئی’وہیں پہلی بار ان کی حالت زار سے دنیاواقف ہوئی۔پاکستان کاصدر’ امپورٹ وزیراعظم اوروزیراعلیٰ کو تھرپارکر کے عوام نے فقیدالمثال کامیابی دلائی۔ مگر ہر پارٹی نے ان کے اعتماد کوریت کا گھروندا سمجھ کرچکناچور کر دیا۔ اس وقت پاکستان کی ترقی میں ریڑھ کاکردار تھرکول کاہوگا ‘اس لیے تھرپارکرکے پسے ہوئے عوام کوقومی دھارے میں لانا اور انہیں تعلیم و صحت سمیت تمام سہولیات مہیاکرنااور ان میں پائی جانے والی محرومیوں کا ازالہ وقت کاتقاضاہے ۔

تحریر:محمدقاسم حمدان