پاکستان کی تاریخ میں 10 بڑی قدرتی آفات میں زلزلے اور سیلاب سرفہرست ہیں۔ 2000 میں صوبہ بلوچستان میں قحط آیا جو 10 ماہ تک جاری رہا اور اس میں 12 لاکھ اموات واقع ہوئیں۔ 1970 میں مشرقی پاکستان میں سائیکلون کی وجہ سے 5لاکھ اموات ہوئیں۔ 1935میں کوئٹہ کے مقام پر 7.7ریکٹر سکیل کا زلزلہ آیا جس میں 10 ہزار سے زائد اموات واقع ہوئیں۔ 1950 میں سیلاب کی وجہ سے 2900 سے زائد اموات واقع ہوئیں جس میں 2900سے زائد لوگوں کی ہلاکت ہوئی اور ایک لاکھ گھر تباہ ہوگئے جس میں 9 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے۔ صوبہ پنجاب کا دل لاہور بھی دریائے راوی میں بڑے سیلاب کی وجہ سے متاثر ہواتھا۔ 1970 میں مشرقی پاکستان میں سائیکلون کی وجہ سے 5 لاکھ سے زائد اموات واقع ہوئیں اور یہ سائیکلون 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام تک جاری رہی۔ 1974 میں این ڈبلیو ایف پی میں ایک بڑا زلزلہ آیا جس نے ضلع ہزارہ اور سوات کو بڑی طرح متاثر کیا جس میں 5300 اموات، 17 ہزار لوگ زخمی اور 97 ہزار سے زائد اموات واقع ہوئیں۔ 2000 میں قحط واقعہ ہوا جس میں 1.2 ملین انسانی جانوں کے علاوہ بڑی تعداد میں جانور بھی ہلاک ہوئے اور یہ خشک سالی 10 ماہ تک جاری رہی۔ 8 اکتوبر 2005 میں کشمیر اور بالاکوٹ کے مقام پر زلزلہ آیا جس میں 73 ہزار موات واقع ہوئیں اور33 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے۔ 2007 میںصوبہ بلوچستان اور سندھ میں سائیکلون سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ جبکہ 2010میں ہنزہ جھیل ڈیزازسٹر اورسیلاب آیا جس میں بہت ساری انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور بڑی تعدا د میں لوگ بے گھر ہو گئے۔
حالیہ تھر کے قحط میں اموات کاسلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ سندھ سمیت حکومتی اراکین نے دورے تو کر لئے لیکن متاثرین کی مشکلات اسی طرح ہی ہیں کوئی کمی نہیں آئی۔ فلاحی ادارے بھی متاثرین کی مدد کے لئے آن پہنچے ہیں ۔مٹھی شہر امدادی کیمپوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جماعة الدعوة پاکستان نے تھرپارکر کے قحط زدہ علاقوں میں ایک ماہ کے خشک راشن کی تقسیم شروع کر دی ہے۔ مٹھی، اسلام کوٹ اور ڈیپلو میں لگائے گئے امدادی کیمپوں سے آٹھ ہزار سے زائد متاثرین میں پکی پکائی خوراک تقسیم کی جاچکی ہے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے مزید رضاکار اور میڈیکل ٹیمیں بھی متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئی ہیں۔ چھ ہزار سے زائد قحط متاثرہ بچوں میں دودھ، جوس، بسکٹ و دیگر اشیائے خورونوش تقسیم کی گئی ہیں۔
فلاح انسانیت فائونڈیشن کی طرف سے قحط متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں بھر پور انداز میں جاری ہیں۔ جماعة الدعوة کے رضاکار دوردراز علاقوں میں پہنچ کر پکی پکائی خوراک و منرل واٹر تقسیم کر رہے ہیں اور میڈیکل کیمپنگ کر کے متاثرین کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ لاہور، فیصل آباد، ملتان، کراچی، حیدرآباد، سیالکوٹ، سرگودھا اور دیگر شہروں سے امدادی ٹیمیں خشک راشن، ادویات اور دیگر اشیاء کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں پہنچ رہی ہیں جنہیںقحط زدگان میں تقسیم کیاجارہا ہے۔ جماعة الدعوة کے مرکزی ترجمان محمد یحییٰ مجاہد نے بتایا کہ جماعةالدعوة نے متاثرین میں ایک ماہ کے خشک راشن کی تقسیم کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے تاکہ ان کے معمولات زندگی بحال کئے جاسکیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی میڈیکل ٹیموںمیں خاص طور پر بچوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹرز شامل ہیں تاکہ متاثرہ بچوں کے علاج معالجہ میں مدد دی جاسکے۔ میڈیکل ٹیمیں لاکھوں روپے مالیت کی ادویات بھی وہاں لیکر پہنچی ہیں۔
Famine Victims
قحط زدگان کے معمولات زندگی بحال ہونے تک امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی امدادی ٹیمیں مٹھی سمیت دیگر دوردراز علاقوں میںبھی پہنچ گئی ہیں جہاں وہ بلاتفریق مذہب ہندوئوں کو بھی امداد فراہم کر رہی ہیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن آئندہ دنوں میں امدادی سرگرمیوں میں مزید تیزی لائی جائے گی تاکہ متاثرین کی مشکلات میں کمی لائی جا سکے۔ جماعة الدعوة کے مرکزی رہنما اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالروف پہلے دن سے ہی متاثرہ علاقے میں موجود ہیں اور کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے صرف حکمرانوں کیطرح دورے پر اکتفا نہیں کیا۔
قحط کی خبریں میڈیا میں آنے سے پہلے بھی جماعة الدعوة تھر و دیگر سندھ کے علاقوں میں ہنیڈ پمپ و کنوئوں کے پروجیکٹ پر کام کر رہی ہے۔ ملک بھر کی دیگر جماعتوں و فلاحی اداروں کو بھی متاثرین کی مدد کرنی ہو گی اور انہیں مشکلات سے نکالنا ہو گا۔ پاکستان آرمی نے بھی تھر میں امدادی سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے فوج کے میڈیکل کیمپس کی تعداد بڑھا کر 6 کر دی گئی ہے جبکہ گزشتہ 3 دنوں میں 3479 مریضوں کا علاج کیا گیا۔ فوج نے مٹھی، ڈیلو، اسلام کوٹ، نگر پارکر، چاپرا اور جانس کے علاقے میں طبی کیمپ قائم کر رکھے ہیں ان کیمپوں میں بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹروں کے علاوہ لیڈی ڈاکٹرز اور دوسرا طبی عملہ بھی تعینات ہے گزشتہ 3 دنوں میں 3479 مریضوں کا معائنہ کیا گیا اس دوران مختلف علاقوں میں فوج کی طرف سے 110 ٹن راشن تقسیم کیا گیا تھرپارکر میں فوج کے سینئر حکام امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ غذائی قلت سے ایک ماہ میں مرنے والے بچوں کی تعداد 32 ہو گئی۔ تین ماہ میں بھوک سے ایک سو اکیس بچے موت کا شکار بن چکے ہیں۔ ہلاکتوں کی محکمہ صحت نے تصدیق کرتے ہوئے شرح اموات کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔ صحراے تھرپارکر 6 تحصیلوں میں قحط اور خشک سالی کے باعث پانی کا بحران بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔
یہ تعداد انتہائی تشویشناک ہے قحط سالی ہے خوراک کی کمی ہے بڑی وجہ ہے یہ بھوک و افلاس سے بچنے کے لئے لوگوں نے شہروں کی جانب نقل مکانی شروع کردی ہے۔ ماہر امراض اطفال سول اسپتال مٹھی ڈاکٹرصاحب ڈنو جنجی کے مطابق چار سے پانچ روز کے پیدل سفر کے دوران ماوں کو خوراک نہ ملنے سے نومولود بچے جاں بحق ہورہے ہیں، صحرائی علاقے تھر کو اکثر برسوں کے دوران قحط کا سامنا ہوتا ہے۔ اس علاقے کی دس لاکھ سے زیادہ آبادی کا گزر بسر مال مویشیوں یا بارش کے پانی پر زراعت سے ہے۔ چارہ اور خوراک دستیاب نہ ہونے کے باعث پہلے مور بیماری کا شکار ہوئے، جس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں بھیڑیں اور بکریاں مر گئی ہیں۔مال مویشیوں کو بچانے کے لیے قحط کے بعد لوگ بیراجی علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔
Wheat
برطانوی دور حکومت میں 15 اگست تک بارشیں نہ ہوتیں تو علاقے کو سرکاری طور پر قحط زدہ قرار دے کر تمام ٹیکس معاف اور رعایتی قیمت پر گندم کی فراہمی کی جاتی تھی۔ گذشتہ سال بھی رھر میں مقررہ وقت تک مطلوبہ بارشیں نہ ہیں اور علاقہ قحط کی لپیٹ میں آگیا۔تھر میں کوئلے، چانئا کلے، گرینِٹ پتھر اور نمک کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی کا کہنا ہے کہ حکومت نے تھر کے ان ہی علاقوں میں سڑکیں بنائی ہیں جہاں یہ ذخائر ہیں تاکہ انہیں چوری کیا جاسکے لیکن وہاں کے عوام میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں جس کا ثبوت حالیہ سنگین صورتحال ہے۔