سنا تھا کہ تھر میں انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ پر سے پانی پیتے ہیں مگر قحط کی صورتحال کے بعد ایسے مناظر دیکھنے کو بھی ملے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے تو کابینہ کے اجلاس کے بعد ”کھانے” اڑائے اور اسی چار دیواری کے باہر متاثرین اس امید میں تھے کہ شاید ہمیں بھی ”زندہ” رہنے کے لئے کچھ مل جائے، وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے دورے کے دوران شاہ جی کے کھانے کی دعوت کو صرف اس وجہ سے ٹھکرایا کہ یہاں کے باسی اس کھانے کے زیادہ حقدار ہیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن ایک ایسا ادارہ ہے جو قحط اور خشک سالی کی خبریں میڈیا پر آنے سے قبل ہی امدادی کاموں میں مصروف تھا۔ 500 سے زائد مقامات پر ہینڈ پمپ و کنویں جماعة الدعوة نے بنائے ہیں۔متاثرہ علاقے میں کام کرنے والے امدادی رضاکاروں نے ایک تصویر بھیجی جس نے سنی گئی بات کو یقین میں بدل دیا ایک ہی تالاب، جوہڑ سے انسان بھی اور جانور بھی پانی پی رہے ہیں۔
تھر پار کر کے عوام کی بھوک ، پیاس اور بے بسی کو الفاظ میں لکھنا ممکن نہیں ۔عورت زندگی بھر سر پر مٹکے اٹھائے ننگے پائوں میلوں پیدل جھلستی ریت،آگ برساتے سورج میں سفر کرتی ہے۔ پیٹ بھر کر کوئی مناسب خوراک کبھی شاید کوئی انہیں ملی ہو۔تھرپارکر میں قحط کے بعد ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے، مزید 4بچے جاں بحق ہوگئے اور مختلف امراض میں مبتلا 19 بچوں کو سول اسپتال مٹھی میں داخل کروایا گیا ہے جن میں سے 6 سے زائد بچوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے جبکہ اسپتال میں اب بھی 80 سے زائد بچے زیر علاج ہیں۔اسلام کوٹ کے نجی اسپتال میں 4 سالہ بچہ کلدیپ میگھواڑ دم توڑ گیا، ڈاکٹروں کے مطابق کلدیپ کے دل میں سوراخ تھا جبکہ مٹھی سول اسپتال میں 2بچے اور اسلام کوٹ کے اسپتال میں ایک بچی دم توڑ گئی۔
ننگر پارکر سے تعلق رکھنے والا 6 ماہ کا رام چند سول اسپتال مٹھِی پہنچ کر چل بسا جبکہ 2 ماہ کے آصف کو اسپتال لایا جا رہا تھا کہ وہ راستے ہی میں دم توڑ گیا۔ دوسری جانب سول اسپتال مٹھی میں ابھی تک علاج کی صورت حال بہتر نہ ہوسکی، اب بھی ایک بستر پرکئی کئی مریض ہیں۔ نواب شاہ میں 30 خاندان مقیم ہیں جو بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں، متاثرین میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جو کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پرمجبور ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے ہمیں سخت مشکلات درپیش تھیں جس کی وجہ سے ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا، متاثرین کا مزید کہنا ہے کہ انھوں نے تھر میں شب وروز جس مشکل میں کاٹے وہی جانتے ہیں، ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، وہ گھاس پھوس کھانے پرمجبور ہیں، حکومت کی جانب سے انھیں کوئی امداد نہیں ملی۔
تھرپارکر میں اب تک قحط سے 143 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف حکومت سندھ کی جانب سے مٹھی سمیت تھرپارکر کے مختلف علاقوں میں گندم کی تقسیم کا عمل جاری ہے جبکہ پاک فوج، جماعة الدعوة،فلاح انسانیت فائونڈیشن،الخدمت فائونڈیشن سمیت دیگر سیاسی و فلاحی ادارے بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ضلع سانگھڑ کے 7اورضلع خیر پور کے 14دیہات کو بھی قحط زدہ قرار دے دیا ہے،وزیراعلیٰ سندھ نے ان دیہات کو متعلقہ ڈویڑنل کمشنرز اور اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی سفارشات پر قحط زدہ قراد دیا ہے، ضلع سانگھڑ کے دیہات میں رانھو، رانک آف تعلقہ کھپرو، رار، چوٹیاریون، بکر، تھر سریجی اور سیان واری شامل ہیں، ان دیہات میں 42050 نفوس متاثر ہیں۔ ضلع خیرپور کے دیہات میں رجستان جبو،کھت گڑھ، سنت راھو، بھٹ تھاروجی ، رضوبھنبھرو، سرہا دانو، دائوجی، الیاسوری، بھٹ بھنگواری، کنڈڑی، لدھاھو، تاج محمود ملو، بخش علی آرادین اور گلاب بھنبھرو شامل ہیں، ان دیہات میں 39174 افراد متاثر ہیں۔
Qaim Ali Shah
وزیراعلیٰ سندھ نے ریلیف کمشنر سندھ، محکمہ ریلیف، صحت، لائیواسٹاک اور خوراک کے صوبائی سیکریٹریز، متعلقہ ڈویڑنل کمشنرز اور اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کومتاثرہ لوگوں کو فوری طور پر غذائی اشیا، دیگر امدادی سامان اورسہولتیں فراہم کرنے کے احکام جاری کیے ہیں۔ وزیراعلیٰ اپنے کوآرڈی نیٹرتاج حیدر کوہدایت کی کہ سانگھڑ اور خیرپور کے اضلاع کے قحط زدہ قرار دیے گئے دیہات میں امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے ریلیف کمشنر سندھ ، متعلقہ ڈویڑنل کمشنرز اور ڈپٹی کمشنروں کو سانگھڑ، خیر پور، گھوٹکی، جامشورو، دادو اور بدین کے صحرائی علاقوں کا فوری طورپر دورہ کر کے وہاں ماحولیاتی اورموسم سے متعلق موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے احکام جاری کیے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے متعلقہ افسران کو ہدایا ت دیں کہ اگر ان کے اضلاع میں کہیں بھی خشک سالی جیسی صورت حال ہے تو وہاں پر لوگوں کے لیے کھانے پینے کی اشیا اور طبی سہولیات جبکہ مال مویشوں کے لیے فوری طور پر چارے کا انتظام کیا جائے۔جماعة الدعوة پاکستان نے تھر پار کر کے قحط سے متاثرہ علاقوں میں65میڈیکل و موبائل کیمپوں کے ذریعہ 12ہزار سے زائد مریضوں کا علاج معالجہ کیا۔19ایمبولینس گاڑیاں بھی متاثرہ علاقوں میں کام کر رہی ہیں۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کی میڈیکل ٹیمیں دور دراز علاقوں میں موبائل میڈیکل کیمپنگ کے ذریعہ طبی امداد فراہم کر رہی ہیں۔پکی پکائی خوراک اور متاثرہ بچوں میں اشیاء کی تقسیم کے علاوہ خشک راشن کی تقسیم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف مٹھی میں بنائے گئے مرکزی ریلیف کیمپ سے امدادی کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں۔حافظ عبدالرئوف کا کہنا ہے کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکارتھر پارکر کے قحط سے متاثرہ دور درازعلاقو ں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
جماعة الدعوة نے اب تک پانیلو،اسلام کوٹ،کنگر پاگر،ویرا وائی،جنگالس،لنجا کالونی،دام ویری ،گورا نو،کیہڑی، چارومڑی ،لبو، کاریہر ، ویلنجا، میجو کڑ میں65 میڈیکل کیمپ لگائے۔ملک بھر کے مختلف شہروں سے آئی ہوئی ڈاکٹروں و پیرا میڈیکل سٹاف کی ٹیموں نے12ہزار سے زائد مریضوں کو طبی امدادفراہم کی جبکہ موبائل میڈیکل کیمپنگ کا سلسلہ جاری ہے۔متاثرہ علاقوں میںمریضوں کو لانے لیجانے کے لئے19ایمبولینس گاڑیاں کام کر رہی ہیں۔ پانی کی قلت اور صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں میں بیماریاں پھیلی ہیں اسی لئے اموات زیادہ ہوئی ہیں۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کی میڈیکل ٹیموں میں چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر بھی شامل ہیں جو مٹھی ہسپتال کے علاوہ میڈیکل کیمپوں پر طبی امداد فراہم کر رہے ہیں ۔جماعة الدعوة کی طرف سے متاثرین میں خشک راشن اور پکی پکائی خوراک کی تقسیم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
گشتہ روز پانیلو میں خشک راشن تقسیم کیا گیا ۔ایک ماہ کے راشن پیک میں آٹا، چاول ، چینی ،دالیں،گھی ،خشک دودھ،صابن سمیت دیگر اشیائے خورونوش شامل ہیں۔مٹھی و دیگر دور دراز دیگر پسماندہ گوٹھوں میں بچوں کو دودھ، جوس، بسکٹ، کیک، ٹافیاں، منرل واٹر اور زیر علاج مریضوں کو تیار کھانے کے پیک روزانہ کی بنیاد پر فراہم کیا جا رہا ہے۔ حافظ عبدالرئوف نے کہا کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن تھر کے قحط زدہ علاقوں میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر خدمت کا کام جاری و ساری ہے ۔مسلمانوں اور ہندوئوں میں بلا امتیاز امدادی سامان تقسیم کیا جا رہا ہے۔ہندو اکثریتی علاقوں میں بھی ریلیف و میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں۔پاکستان رینجرز سند ھ نے بھی متاثرین تھر کی امداد کے لیے غذائی اجناس اور دیگر اشیا کے مزید 3 ٹرک روانہ کردیے۔ بھیجے جانے والے ٹرک میں 30 ٹن خشک راشن جس میں دالیں، گندم، گھی، چاول، خشک دودھ ، چائے اور منرل واٹر شامل ہیں، راشن کا سامان صحرا ئے تھر میں متاثرین کو وہاں تعینات رینجرز اہلکار تقسیم کریں گے جو وہاں پر امدادی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔تھر میں امدادی کاروائیاں جاری ہیں پھر بھی اموات رکنے کا نام نہیں لے رہیں،کئی ادادرے تو صرف فوٹو سیشن کروا کر سامان واپس لے آتے ہیںگزشتہ دنوں جب قائم علی شاہ نے مٹھی ہسپتال کا دورہ کیا تو ایک ادارے نے ہسپتال کے احاطے میں کیمپ قائم کیا مگر جب شاہ جی کی واپسی ہوئی تو سامان واپس چلا گیا اوت مانگنے پر متاثرین پر ڈنڈے برسائے گئے۔
ایک طرف متاثرین مشکل سے دو چار ہیں دوسری طرف ان کے جذبات ،امیدوں کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔اگر آج تھر میں قحط آیا ہوا ہے لوگ مسائل کا شکار ہیں تو کل کہیں اور بھی ایسا ہو سکتا ہے ۔خدا کے لئے متاثرہ افراد کی مدد کی جائے انکے جذبات کے ساتھ کھیلنے کیلئے شاہ جی کافی ہیں۔