تھرپارکر (جیوڈیسک) تھر پارکر کے بیش تر متاثرین اب تک حکومتی امداد کے منتظر ہیں، اسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں، دیہی علاقوں میں رہنے والوں تک امداد کی رسائی مشکل بنی ہوئی ہے۔ بھوک، پیاس، دکھ اور بے بسی کی زنجیر میں جکڑے تھر کے عوام روز موت کو قریب سے دیکھ رہے ہیں تھر کے بچے اسکول نہیں جاتے، بھیک نہیں مانگتے، مزدوری کرکے پیسہ نہیں مانگتے، دو لقمے، دو گھونٹ پانی مانگتے ہیں۔
مٹھی سول اسپتال میں مریضوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، مختلف اسپتالوں میں غذائی قلت اور مختلف امراض میں مبتلا بچے داخل ہیں، بھوک پیاس سے اب تک 142 سے زائد بچے موت کی آغوش میں جاچکے ہیں۔ اسپتال میں مریض علاج کے لیے گھنٹوں لائنوں میں کھڑے رہتے ہیں۔ تھر پار کر میں غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومتی ادارے، پاک فوج رینجرز، سیاسی وسماجی اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے امداد ی سرگرمیاں جاری ہیں۔
ریلیف آپریشن شروع نہ ہونے کے باعث ریگستان کے دوردراز علاقوں میں رہائش پذیر مکینوں نے شہروں کا رخ کر لیا ہے۔ امدادی سرگرمیوں میں مصروف ٹیموں کا کہنا ہے کہ بیشتر دیہاتوں میں امداد نہ پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی ہے۔