سندھ کے موجودہ حکمران اپنے عوام کے ساتھ نہایت ہی بد دیانتی کا سلوک کر رہے ہیں۔جن کے ووٹوں سے یہ لوگ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے ہیں ان ہی کے ساتھ ان کا سب سے زیادہ بے رحمانہ سلوک بھی جاری ہے۔اول تو موجودہ پیپلز پارٹی شہید ذوالفقار علی بھٹو والی پیپلز پارٹی ہی نہیں دکھائی دیتی ہے ۔بلکہ اگر یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ قبضہ مافیہ کی پیپلز پارٹی ہے۔جس کے بعض خفیہ ہاتھوں نے بے نظیر کو اپنے راستے کا پتھر سمجھ کر اسے راستے سے ہی ہٹوا دیا اور پھر جب لوگوں نے کہا کہ بے نظیر کے قاتلوں کو پکڑو اور ان سے شہید بے نظیر کے خون کا حساب لو تو کہنے والوں نے کہا کہ جمہوریت (اقتدار) ہی سب سے بڑا انتقام ہے اور پھر اُس مظلوم کے قاتل کہیں فضائوں میں گُم کر دیئے گئے اور قبضہ مافیہ نے بے نظیر کے لاش پر حکمرانی کے جھنڈے گار دیئے اور ملک کو ایسی معاشی تباہی سے ہم کنارکیا کہ جس کی ماضی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے۔
تھر جو پاکستان کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔جہاں انسانیت ایک مدت سے سسک رہی ہے۔ مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے بے حس سندھی حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں سے ہی فرصت کہا ںکہ مرتے انسانبوں کی خبر لیں ۔آج پاکستان کے تما م صوبے تو سیاست کے شہزادوں کی نرسریاں ہیں جہاں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کربے ایمانی اور چوریوں چکاریوں کے پیسے سے ان گھمنڈیوں کو عوام کو بیوقوف بنانے کی خوب خوب تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ تاکے آنیوالے کل کو یہ بھی اپنے پُرکھوں کی فراہم کر دہ تربیت کے بل بوتے پر عوام کے سینوں پر مونگ دلنے کی اہلیت حاصل کر کے اقتدار کے ایوانوں میں برجمان ہو سکیں۔ یہ شہزادوں نما بھیڑیوں کا منی ریوڑ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستان کے عوام کے مسائل کیا ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ بلاول زرداری کے دل میں سندھ کی ثقافت نے جوش مارا تو موصوف نے ایک نہایت ہی مہنگا ترین فیسٹیول سجا کر تھر کے بھوکے پیاسے لوگوں کو محوِ حیرت کر دیا۔جس نے قوم کی خون پسینے کی کمائی کے پانچ ارب روپے سندھ کی ثقافت کے نام پر بہا دیئے۔ان شہزادوں کی بلا سے لوگ بھوکے ہیں تو کیا فرانس کی ملکہ کی طرح یہ بھی ہی کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ اگر لوگوں کو روٹی نہیں مل رہی ہے تو کیک کھائیں!!!کیونکہ ان کا شاید خیال ہے کہ تھر کے بچوں کو بچانے سے بہتر ہے کہ سندھ کی ثقافت کو پروان چڑھایا جائے۔ ان کے نزدیک انسانی جانوں سے قیمتی ثقافتی سر گر میاں ہیں … لوگ تو پیدا ہوتے اور مرتے رہیں گے مگر ثقافت کا قئم رہنا ضروری ہے۔لہٰذالوگ مرتے ہیں تو مریں سندھ کی ثقافت زندہ رہے کی تو ہماری حکمرانی کی آبیاری بھی ہوتی رہے۔گی۔جس میں ناچ گانے اور دھمال سندھ کی ثقافت کے نام پر ڈالے گئے۔جہاں سے ایک ایک ناچا (ناچنے والا)اور دھمالچی کئی کئی لاکھ روپے لے اڑا اورجن غریبوں کے نام پر پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتائوں نے ووٹ لئے تھے انہیں بھوک و افلاس کا شکار بنا کرپیپلز پارٹی کا یہ نام نہاد شہزادہ دوبئی میں اپنے محلات میں جا چھپا اور سندھ خاص طور پر تھر کے بھوک و افلاس کے مارے لوگ ان کا منہ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔جن کا مقدر ان لوگوں نے بھوک ، بیماری اور افلاس لکھ دیا ہے۔
Thar Children
تھر کے بے آب و گیاہ علاقے میں جہاں پانی ہے نہ مانی ہے اور سونے پہ سہاگہ بیماریوں نے اس خطے میں آج سے نہیں بلکہ سالوں سے ڈیرے ڈالے ہوے ہیں۔ جہاں سینکڑوں مور ان کی مورنی جیسی چال کی نظر ہوگئے۔ ہزاروں بھیڑیں موت کا شکار ہوگیئںچپے چپے پر وبائی امراض سر اٹھائے ہوے ہیں۔ مگر ان کم نصیبوں کی کوئی فریاد تک سُننے والا نہیں ہے۔بھوک و افلاس کیوجہ سے اس دھرتی پر گذشتہ ایک ہفتے کے اندر غذائی قلت کے نتیجے میںقریباََ 500 سو معصوم روحیں بھوک کے نتیجے میں ننھی جانوںکے قفسِ عنصری سے پروازیں کر چکی ہیں۔ان ننھی جانوں کے قاتل کوئی اور نہیں ہیں بلکہ ان کے اپنے حکمران ہیں جو بڑی بڑی جاگیریں بھی ہتھیائے ہوے ہیں۔یہ جاگیر دار جاگیر دار اور لُٹیرے ان کی بربادی کے اصل ذمہ دار ہیں۔
جو بے حسی کی دلدل میں مدتوں سے دھنسے ہوے ہیں ۔ان کے بچوں کو کانٹا بھی چُبھ جائے تو ان کے لئے ایک قیامت ہوتی ہے اور پھر تو لندن و امریکہ کے ہسپتالوں کے دروازے ان کے لئے وا کروا دیئے جاتے ہیں۔مگرانہیں اپنی ناک سے نیچے کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا ہے۔ سندھ حکومت کے پاس غذائی اجناس کے انبار لگے ہوے ہیں مگر مجال ہے افلاس کے مارے غریبوں کو ایک دانہ بھی مل جائے۔جبکہ میڈیا کے شور مچانے پر کئی دنوں کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ کو بیداری نصیب ہوئی تو بھاگے ہوے تھر پہنچے اور اور بھوکوں کو چڑانے کے لئے ان سے چند قدم کے فاصلے پر ہی دعوت شیراز اڑاتے ہوے پائے گئے۔جو ان دکھ درد کے مارے لوگوں کے منہ پر طمانچہ مارنے کی کوشش ہی کہا جا سکتا ہے۔ان کا مقصد یہ تھا کہ بھوکوں، مفلسوں دیکھ لو!!! کون کہتا ہے کہ تھر میں قحط اور بھوک نے ڈیرے ڈالے ہوے ہیں۔اقبال تو کہتے ہوے چلے گئے کہ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ روزی اُس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو!”آج کے حالات کے تحت سندھ کے حکمرانوں پر روم کے مقتدرنیرو کے متعلق کہی بات صادق آتی ہے کہ ”روم جل رہا تھا تو نیرو اپنی بنسری سنبھالے ایک ٹیلے پر بیٹھ کر چین کی بنسر ی جا رہا تھا” یہی کچھ سندھ کے رعونت یافتہ حکمران کر رہے ہیں۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ کا یہ اعتراف بھی معنی رکھتا ہے کہ تھر میں حکومت سندھ کی طرف سے غفلت برتی گئی ہے اور یہ صورت حال انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے !!!تو جناب فرما یئے ان کا سربراہ کون ہے؟قائم علی وزیراعلیٰ سندھ صاحب بڑے افسوس کا مقام ہے!!! سینکڑوں بچے بھوک کے گرداب میں موت کی اجلی نیند سوگئے اور جب آپ کو ہوش آیا توتھر کی طرح سندھ کی حکومت کو چُلو بھر پانی بھی نہ ملا کہ….انیس من آپ کو تو ہوش میں آتے ہی استعفےٰ دے کر اپنے گھر کو سدھارنا چاہیئے تھا۔ کہ مگر ڈھٹائی کے ساتھ آج بھی آپ راج گدی پر بیٹھے ہیں شیم شیم شیم….وہ کہتے ہیں نا کہ ”کُمہار کا گدھے پر تو بس چلا نہیں اُس نے گدی کے کان مروڑنا شروع کر دئے”تو آپ نے بھی دو چار لوگوں کو ادھر اُدھر کیا اور بس !!!پاکستان کے لوگوں کی اکثریت کی رائے ہے کہ موجودہ سندھ حکومت بے حسوں کا پریوار ہے۔جس میں غریبوں بے سہاروں اور بیماروں کی داد رسی کرتا سب سے کبیرہ گناہ ہے.. بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے ہوش میں آتے ہی قحط زدہ تھر میں گندم کی تقسیم سمیت امدادی کار وائیاں شروع کرنے کے احکامات تو دیدئیے مگر ان پر عمل کرنے والا کئی دنوں تک تو کوئی سامنے ہی نہیں آیا۔ اس وقت صحرائے تھر کی آبادی لگ بھگ پندرہ لاکھ نفوص پر مشتمل ہے جو 2365دیہاتوں پر مشتمل ہے۔سندھ کا صحرائے تھر ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے جو معدنی دولت سے بھی مالا مال ہے۔جہاں پر دنیا کے عظیم ترین کوئلے کے دفینے موجود ہیںجن سے بجلی پیدا کر کے ہم اپنی بجلی کی ناصرف ضروریات پوری کر سکتے ہیں بلکہ اسے ہم صدیوں تک استعمال بھی کر سکتے ہیں۔اس علاقے کے لوگوں کی گذر بسر مال مویشیوں اور بارانِ رحمت سے حاصل شدہ پانی کے ذریعے کاشت پر ہوتی ہے۔ جس سال بارش نہ ہوتو یہ لوگ غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
Bilawal Bhutto Zardari
یہ خبر سن کر قائرین کو افسوس اور حیرت ساتھ ساتھ ہوگی کہ سابق صدر کے صاحب زادے جنہیں لیڈر بنانے کی سر توڑ کوششیں ہو رہی ہے۔ تھر ہسپتال میں مریضوں کی عیادت کے لئے پہنچے تو ۔وہ ہسپتال کے اندر مریضوں کی جس وقت عیادت کا کھیل کھیل رہے تھے اُسی وقت موصوف کی سیکورٹی کے انتظامات کی بھینٹ ایک معصوم چڑھ گیا۔جس کا خاندانہ غم و الم کی تصویر بنا سر پیٹ رہا تھا۔ جو سندھ کے بے حس حکمرانوں کی مصنوعیت پر سوالیہ نشان تھا….مگر مستقبل کا تھرکا تصوراتی بادشاہ آنکھیں موند کر نکل کھڑا ہوا۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com