تحریر : سید انور محمود مارچ 2014ء میں قحط سے متاثرہ صحرائے تھر میں ایک محتاط اندازوں کے مطابق پانچ سال کی عمر تک کے 175سے زائد بچے بھوک سے ہلاک ہو گے تھے۔ اس کے علاوہ آٹھ لاکھ سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے تھے۔ مویشی جو اس علاقے کی معیشت ہیں اورجن پر اس علاقے کے غریب لوگوں کی زندگیاں منحصر ہیں۔ مارچ 2014ء تک 3 لاکھ سے زائد افراد بلواسطہ طور پر قحط کے بحران سے متاثر ہوئے، جن میں سے ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کرگے اور ہجرت کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اوربڑھتا جارہا ہے۔ اُس وقت سندھ فیسٹیول کے نام پر ثقافت کا جشن منانے اورکروڑوں روپے اڑانے والی سندھ حکومت کو نہ ہی بلکتے بچوں کی صدائیں سنائی دیں اورنہ ہی ماوٴں کے بہتے ہوئے آنسوں کا اُن پر اثر ہوا، لیکن سپریم کورٹ میں قحط کے اوپر “ازخود نوٹس لینے اور سماعت کے دوران ایک جج کے اٹارنی جنرل سے یہ سوال کرنے پرکہ “کتنے بچے مرینگے توآپکی حکومت حرکت میں آئے گی؟ اور دوسری طرف میڈیا کے شور مچانے اور مرنے والے بچوں کی تعدادمنظر عام پر آنے سے سندھ حکومت حرکت میں آئی تھی۔ قحط سے متاثرہ لوگوں کے لیے کام کرنے والے بدعنوان حکمرانوں اور سرکاری ملازمین کی تو لاٹری نکل آئی اور امداد کے نام پرسندھ حکومت کے امدادی کاموں میں کرپشن شروع ہوگئی۔ گندم، چاول، چینی اور دیگر اجناس کے جو پیکٹ متاثرین کو دیئے گئے تھے وہ درج شدہ مقدار سے کم نکلے۔ کرپشن کا حال یہ تھا کہ انسان تو انسان جانوروں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ تھر میں جہاں قحط سے انسان مررہےتھے تو وہیں چارہ نہ ملنے پرمویشی بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہورہے تھے ۔ اسی لیے مویشیوں کے لیے بھی چارے کے پیکٹ بنا کر بھجوائے گے، تاہم مویشیوں کے سرکاری چارے کے پانچ کلو والے پیکٹوں کو جب تولا گیا تو وہ اپنے درج شدہ وزن سے ایک سے ڈیڑھ کلو کم نکلے۔
جہاں حکمراں خود کرپٹ ہوں وہاں عوام کو کبھی بھی یہ امید نہیں رکھنی چاہیئے کہ کرپٹ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے اُن کے مسائل ختم ہوجاینگے۔ بلاول زرداری ٹھیک کہتا ہےکہ” سندھ نہ ڈیسوں” کیونکہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کےلیے اب تو اپنی لوٹ مار کےلیے صرف سندھ بچاہے، لہذا سندھ کے عوام کی مصیبتیں کم از کم جبتک تو برقرار رہنی ہیں جب تک پیپلزپارٹی سندھ پر مسلط ہے۔صرف تھوڑئے عرصے بعد ہی تھرپارکر میں ایک مرتبہ پھربچوں کی اموات کی خبریں آنی شروع ہوگیں اور ابتک کی اطلاع کے مطابق اس ماہ میں 28 بچے بھوک کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ہیں۔ میڈیا کے ایک مرتبہ پھر شور مچانے پر دوسری مرتبہ قحط سے متاثرہ صحرائے تھر میں متاثرہ افراد کی دادرسی کیلئے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ تھر پہنچے۔ تھر متاثرین سے انہوں نے ایک اجتماع کے دوران ملاقات کی، غذائی قلت کی وجہ سے سینکڑوں مائیں اپنے جگر گوشوں سے محروم ہوچکی ہیں۔ غذائی قلت کی گھمبیر صورتحال پرمیڈیا نے شور مچاکر سندھ حکومت کو تو جگا دیا لیکن وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کو وہاں جاکر نیند آگئی۔ تقریب میں پہنچے تو اس کے شرکا کی تقریریں سنتے سنتے سو گئے، جاگے توتقریر کرکے پیپلز پارٹی کے کارنامے گنوائے۔
ذرائع کے مطابق لاکھوں روپے خرچ کرکےتھرپاکر کے مظلوموں کی دادرسی کے دورےکے دوران وزیراعلیٰ سندھ نے واپس روانہ ہوتے وقت اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ایک خاتون کو لفافہ تھماتے ہوئے کہا کہ یہ آپس میں بانٹ لینا۔ لفافہ کھلنے سے قبل خاتون کا خیال تھا کہ لفافے میں کثیر رقم موجود ہوگی لیکن لفافہ کھول کر خاتون کی حیرت میں اضافہ ہوا، لفافے میں ایک ہزار روپے کا کرنسی نوٹ تھا۔قائم علی شاہ کی اس فیاضی پر کچھ یوں کہا جاسکتا ہے کہ “ایک دکاندار نے آدھ گھنٹہ کی حجت و تکرار کے بعد ایک فقیر کو ایک پیسہ دیا۔ فقیر پیسہ لے کر چلنے لگا تو دکاندار کہنے لگا، ائے فقیر ذرا یہ تو بتا وُ کہ اس پیسے کا کیا کرو گے۔ فقیر نے جواب دیا امپیریل بینک میں رکھوا دوں گا اور اس کے سود پر زندگی گزاروں گا۔ بہرحال آپ مطمئن رہیں آپ نے جو رقم عطا کی ہے اس پر آنچ نہیں آنے پائے گی”۔اب وہ عورت کیا کرئے گی اس ہزار روپے کا یہ معلوم نہ ہوسکا۔
Thar Children
تھر پارکر کا رقبہ 19 ہزار کلومیٹر ہے جہاں تین ہزار سے زائد دیہاتوں میں 16 لاکھ لوگ تھر کی قدیم روایات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس ضلع کے قرب و جوار میں مٹھی، اسلام کوٹ، ننگر پارکر، چھاچھرو اور ڈیپلوجیسے علاقوں میں ریتلے میدان اور کنوؤں سے پانی نکال کر سروں پر مٹکے اٹھائے ریتیلی زمین پر چلتی عورتیں پسماندہ ترین طرز زندگی کا منظر پیش کرتی ہیں۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اجناس میں خودکفیل ہے، خشک سالی ایک قدرتی عمل ہے جبکہ قحط انسانی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے، اسلیے یہ کہنا کہ یہ ایک قدرتی آفت ہے قطعی غلط ہے، سوائے صحرائے تھر کے باقی پورئے ملک میں بارشیں بھی ہوئیں اور اجناس کی پیداوار بھی ہوئی۔یو ایس ایڈ نے قحط کو تباہ کن غذائی بحران قرار دیا ہے جو بڑے پیمانے پر غذائی قلت اور اموات کا باعث ہوتا ہے ۔ گندم گوداموں میں تو موجود ہوتی ہے مگرسرکاری حکام کے کرپشن کی وجہ سے ضررورت مند ترستے رہتے ہیں۔تھرپاکر میں قحط اور اموات کی وجہ سندھ حکومت کی نااہلیت اور کرپشن ہے۔
قائم علی شاہ لاکھوں روپے خرچ کرکے تھرپارکر میں بھوک اور پیاس سے تڑپتے لوگوں کو دیکھنے اور ان کی مدد کےلیے گے تھے اور شاہ صاحب نے اپنی ایک ہزار روپے کی فیاضی سے بھوک اور پیاس سے تڑپتے لوگوں پر رحم کھاکر جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ تاریخ کے کالے صفحوں پرضرور لکھا جایگا۔ اپنے دورئے کے دوسرئے دن سندھ اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ کا کہنا تھا کہ تھرکے 16 لاکھ لوگوں کے لیے 2 ارب روپے کی گندم فراہم کی گئی جبکہ گذشتہ 6 سال سے متاثرین میں گندم تقسیم کر رہے ہیں جبکہ تھرپارکر کے دور دراز علاقوں میں ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں، مٹھی اسپتال کا معیار کراچی کے سول اسپتال کے برابر ہے اگر کسی کو شک ہے تو مٹھی جائے اور وہاں کے اسپتالوں کا موازنہ سندھ کے دیگر اسپتالوں سے کر لے۔ قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ تھر میں بچے بھوک سے نہیں بلکہ غربت سے مرے ہیں۔مٹھی کا اسپتال اگر واقعی کراچی کے سول اسپتال کے برابر ہے تو دعا ہے کہ قائم علی شاہ آئندہ جب بھی بیمار ہوں تو اُن کا علاج مٹھی کے اُسی سرکاری اسپتال میں ہی ہو۔ واقعی تھر میں کھانے کی کوئی کمی نہیں قائم علی شاہ جب بھی ہلاک ہونے والے معصوم بچوں یا بھوک اور پیاس سے تڑپتے لوگوں سے ہمدردی کےلیےتھرپارکرجاتے ہیں، مصیبت زدہ لوگوں کےلیے کچھ کریں نہ کریں مگر وہاں جاکر ہمیشہ دعوتیں ضرور اڑاتے ہیں، اس مرتبہ بھی اُنکی اور اُنکے حواریوں کی دعوت کےلیے دو سو کلو میٹر سےدور سےاسپیشل کھانا منگوایا گیا تھا۔
تھرپارکر گذشتہ 3 سال سے شدید قحط سے دوچار ہے۔ میڈیا کے کیمروں کے سامنے آکر غریبوں، بھوکوں اور بیماری کے شکار لوگوں میں امداد کے تمام تر حکومتی اعلانات کے باوجودبھوک اور بیماری میں مبتلا تھر کےمصیبت زدہ لوگ ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور حکمرانوں کو تو ابھی تک یہ بھی پتا نہیں کہ قحط سے متاثرہ صحرائے تھر میں اموات کی تعداد کیا ہے اور کتنے لوگ بھوکے یا بیمار ہیں۔ یہ جو اسلام آباد میں دھرنے ہوئے اور اس لوٹ مار کے نظام کے خلاف کھل کر لوگوں نے نفرت کا اظہار کیا یہ علامہ طاہرالقادری اور عمران خان سے محبت کا اظہار نہیں ہے بلکہ پاکستان میں قائم لوٹ مار کے نظام کے خلاف یہ بغاوت کی چنگاری ہے، حکمران ابھی تو خوش ہولیں کہ وہ اپنی کرپشن کے زریعےایک تھرپار کیا پورئے ملک میں اپنی لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن جب کروڑوں استحصال زدہ لوگوں کے دل و دماغ میں جمع ہونے والی نفرت کے بارود میں آگ لگے گی تو حکمرانوں اور اُن کے حواریوں کو بھاگنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔