کراچی (جیوڈیسک) سندھ کا ضلع تھرپارکر جہاں، خشک سالی زندگی کی تمام رعنائیاں چھین چُکی ہے۔ پانی کی بوند بوند اور روٹی کے نوالے کو ترسے لوگ موت سے پنجہ آزما ہیں۔ تھر کی ایک اور ننھی آواز حیدر آباد کے ہسپتال میں بلک بلک کر دم توڑ گئی۔
اس طرح ایک ماہ میں قحط سے جاں بحق بچوں کی تعداد 33 ہو گئی۔ ستم ظریفی دیکھئے گوداموں میں گندم کی 12 ہزار سے زائد بوریاں تو موجود ہیں مگر گوداموں کو تالے لگے ہیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے تھر میں قحط سالی کا نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے چیف سیکریٹری کو 14 مارچ کو طلب کر لیا ہے۔
دوسری جانب کراچی میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے اعتراف کیا کہ تھر میں گندم کی تقسیم درست طریقے سے نہیں ہوئی۔ انھوں نے بھی بچوں کی اموات کی وجہ نمونیا اور ناقص خوراک کو قرار دیا۔ مقامی ایم پی اے ایم پی اے مہیش کمار ملانی نے سول ہسپتال مٹھی کا دورہ کیا۔
ایم پی اے دور کی کوڑی لائے۔ کہتے ہیں کہ بچوں کی موت بھوک نہیں بیماری سے ہوئی ہے۔ آفت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھنے والوں کی نقل مکانی جاری ہے۔