تحریر : آر ایس مصطفی تھرپارکر سندھ کے 24 اضلاع میں سے سب سے بڑا لیکن نہایت پسماندہ ضلع ہے اس کا کل رقبہ 19,638 مربع کلو میٹر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 955,812 نفوس پر مشتمل ہے۔ تاہم اب اس کی آبادی 13 لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ 98ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع بھر میں مسلمان قریباََ 60 فیصد ہے، جبکہ ہندو 40 فیصد کے قریب ہے۔ یہاں کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ صاف پانی کی عدم دستیابی ہے۔ اسی کے باعث تھر قحط سالی کا شکار رہتا ہے۔
تھر کی زمین ہمیشہ سے پیاسی رہی ہے۔ قدرت مہربان ہو اور بارش آجائے تو پیاسی زمین میں جان پڑ جاتی ہے۔ لیکن ابرکرم نہ برسے تو قحط سالی انسانوں کے ساتھ ساتھ مویشیوں کو بھی گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیتی ہے مگر تھری اب تین سالوں سے بارش کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور تھر ی مفلسی اور غذائی قلت کی وجہ سے بچے مر رہے ہیں۔
تھر میں زندگی کی رمق برقرار رکھنے کے لیے مستقل بنیادوں پر پینے کا صاف پانی مہیا کرنا سب سے اہم مسئلہ ہے۔تھر کی زمین اورتھری باشندوں کی پیاس بجھانے کے لئے آراوپلانٹ بھی کام نہ آیا۔پلانٹ کے تالاب پر ٹینکر مافیا کے راج نے صحرائی علاقوں کو پانی پہنچانے کا خواب سچ نہ ہونے دیا۔ آراو پلانٹ کو انتظامیہ نیایشیا کا سب سے بڑا فلٹر پلانٹ قرار دیا۔
Tharparkar Water Plant
انتظامیہ کا دعوی تھا کہ اس پلانٹ سے یومیہ بیس لاکھ گیلن میٹھا پانی تیار کر کے مٹھی کے شہریوں کو فراہم کیا جائے گا مگر ایک سال گزرنے کے باوجود بھی اس پلانٹ سے شہریوں کو پانی کی فراہمی ممکن نہ ہو سکی۔
مشرف دور حکومت میں تھر کے شہر ڈوڈارو فارم میں اٹھتیس کروڑ روپے کی خطیر رقم سے ڈیپلو اور اس کے مضافاتی علاقوں کی رہائشی آبادی کو میٹھا پانی فراہم کرنے کے لیئے ڈوڈارو پمپنگ اسٹیشن بنایا گیا تھا جس کا مقصدڈوڈارو شہر سے ڈیپلو شہر تک 70 کلومیٹر کی حدود میں موجود پچاس ہزار سے زائد آبادی کو پینے کا میٹھا پانی فراہم کرنا تھا مگر تھر پارکر میں ہونے والی 2011 کی طوفانی بارشوں میں ڈوڈارو پمپنگ اسٹیشن کی پائپ لائن جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی جس کے باعث ڈیپلو اور اس کے مضافاتی علاقوں میں شہریوںکو پانی کی فراہمی معطل کردی گئی جو آج بھی معطل ہے ،پانچ سال گذرجانے کے باوجود پائپ لائن کا مرمتی کام شروع نہیں کروایا گیا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی پچھلے چالیس سالوں سے حکمران جماعت کے طور پر آگے رہی ہے اور پیپلز پارٹی کا منشور ہی روٹی ،کپڑا اور مکان رہا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی آج تک سندھ کے لوگوں کو اْن کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے ؟اس کی وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ حکمران اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے،ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہے یہی وجہ ہے کہ وہ تھر جہاں مور ناچتے تھے آج وہاں موت کی گہری تاریکی چھائی رہتی ہے اب تھر میں اونٹوں کی گھنٹیاں سنائی دینے کی بجائے موت کا سارن سنائی دیتا ہے۔
آج حکمران روٹی پانی اور صحت جیسی سہولیات دینے کی بجائے بھوکی عوام کو سکیمیں دینے میں لگ گئے ہیں کیونکہ کمیشن یہی سے ملنا ہے ۔آج حکمرانوں کو کوئی خوف خدا نہیں کہ جب روز قیامت حساب ہوگا تو کیا جواب دے گے۔
حضرت عمر ِفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت چوبیس لاکھ مربع میل پر تھی۔ راتوں کو اْٹھ اْٹھ کر پہرادیتے تھے اور لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت عمر ِفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا توکل قیامت کے دن عمر(حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے اس بارے پوچھ ہوگئی۔ا ج تھر ہماری راہ تک رہا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہو اور اس مشکل گھڑی میں ساتھ دیں۔
Tharparkar Child
اہل قلم اس معاشرے کے سب سے حساس لوگ ہوتے ہیں اور ہر چیز کو بہت گہری نگاہ سے دیکھتے ہیں اسی سلسلے میں کالم نگاروں کی تنظیم پاکستان فیڈریل کونسل آف کالمسٹ نے تھر کی صورتحال کو اجاگر کرنے کیلئے ایک مہم کا آغاز کیا ہے اور تمام لکھنے والوں کو دعوت دی جا رہی ہے کہ تھر کی صورت حال کو اجاگر کریں۔
اسی سلسلے میں پاکستان فیڈریل کونسل آف کالمسٹ کا ایک ستائیس رکنی وفد تھر گیا ہے تاکہ تھر کی صورت حال کو قریب سے دیکھا جائے اور تھر کی صورت حال کو اور بہتر انداز میں اجاگر کیا جا سکے۔
تھر میں زندگی تھر تھرا رہی ہے اور تھرئیوں کا پرسان حال نہیں،حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی، اس صورت حال میں سماجی کارکنوں،ملکی وغیر ملکی این جی اوزکا فرض ہے کہ تھر میں تھر تھراتی انسانیت کا ہاتھ تھامے اور انسانیت کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
موسمِ پرواز تھا لیکن قحط ایسا پڑا بھوک لگنے پر پرندہ اپنے ہی پر کھا گیا