تھر کے بھوک سے بلکتے سسکتے مرتے بچے

Tharparkar Child

Tharparkar Child

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
جب گزشتہ دنوں ملک کے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے موجودہ صدرآصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ زرداری بھٹو کی بلیوں کو بلاول ہا و¿س لاہور کا موسم راس نہیںآیا اور وہ بیمار پڑگئیں تو اِنہیں فوراََ چیک اَپ کے لئے جانوروں کے ماہر اور اسپیشلٹ ڈاکٹر کے پاس بھجوادیاگیا اور بلیوں کی دیکھ بھال کے لئے بھی تُرنت تربیت یافتہ عملہ تعینات کردیاگیا تاکہ آصفہ کی یہ بیمار بلیاں جلد ٹھیک ہوجائیںاور آصفہ خوش ہوجائیں جیسے ہی آصفہ کی بلیوںکی بیماری کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلی ہوگی تو یقینا آصفہ کی بیمار بلیوں کے لئے لاہور سے لے کر کراچی سمیت مُلک کے جن شہروں اور دنیا میں جہاں کہیں بھی بلاول ہاو¿س قائم ہیں وہاں آصفہ کی پیاری پیاری معصوم اور قیمتی بیمار بلیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دُعاو¿ں اور وظائف کے ورد شروع ہوگئے ہوں گے اور ایسے میں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کی اعلیٰ و ادنیٰ قیادت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اِن کے جیالے حرکت میںآگئے ہو ں گے اِن کا تو بس نہیں چل رہاہوگا کہ یہ کب اُڑ کر بلاول ہاوس لاہور پہنچ جائیں۔

آصفہ زرداری بھٹوکی بیمار بلیوں کی خدمت اور تیماداری کے لئے اپنی خدمات پیش کردیں ایک اندازہ ہے کہ ایسا کرنے کے لئے ہزاروں جیالے بیتاب ہوگئے ہوں گے و ہ تو بڑااچھاہواکہ لاہور کے جانوروں کے ماہر ڈاکٹر حضرات کی فوری خدمات بلیوں کو حاصل ہوگئیں اور آصفہ کی بلیوں کی طبیعت سنبھال گئی ورنہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز اور اِ س کی ہم خیال جماعتیں اِس پر بھی اپنی سیاست چمکاتیںکہ آصفہ کی بلیوں کی بیماری کی پیچھے بھی ن لیگ کی کوئی سازش ہوسکتی ہے یکدم اِسی طرح جیسے آج سندھ میں نیب اور رینجرز کے ہاتھوںبے لگام کرپشن اور کرپٹ عناصر کو بے نقاب کرنے پر پی پی پی یہ کہتی پھررہی ہے کہ اِس سارے عمل کے پسِ پردرہ ن لیگ اور وفاقی حکومت کی سازش کارفرماہے ہم اِس کا ہر طریقے سے مقابلہ کریںگے یہ انتقامی سیاست ہے جو جمہوریت کو ڈی ریل کردے گی۔

بہر کیف ، مگر یہاں یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جب تھر میں غذائی قلت اور صحت کی سہولیات اور صاف وشفاف پینے کا پانی نہ ہونے اور کئی سالوں سے دیگر وبائی امراض پھیلنے کی وجہ سے بلکتے سسکتے بچوں کی اموات میںاضافہ ہو اور کراچی کی اہم اور انتہائی مصروف ترین شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر غیر اخلاقی اور غیر قانونی پروٹوکول کی وجہ سے لیاری کی بسمہ جیسی کوئی معصوم بچی کی موت ہوجائے توتب زبان کی نوک سے سوائے رسمی طور پر ہلکے پھلے افسوس اور ہمدردی کے دو جملوں کے نہ تو پاکستان پیپلز پارٹی پالیمنٹرئنز کے صدرآصف علی زرداری ، چیئرمین بلاول زرداری بھٹو اور سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ سمیت سندھ حکومت اور اِس کی انتظامیہ میں سے کسی بھی فرد کے کان پر جوںبھی نہ رینگیں اور اِس پر اُلٹا یہ سب سُکھ اور چین کی بانسری بجاتے رہیں۔

Protocol

Protocol

اپنے اپنے معاملاتِ زندگی یوں ہی پروٹوکول پہ پروٹوکول کے ساتھ چلاتے رہیں کہ جیسے کچھ ہواہی نہیں ہے کیونکہ مرنا تو غریب اور اِس کے بچوں کا مقدر ہے یہ پیداہی مرنے کے لئے ہوئے ہیں، ہمارے نزدیک تو اِن کی اہمیت حشرات الارض جیسی ہے مگر ہم چونکہ اِنسان ہیں اِس لئے محفوظ اور لمبی زندگی کا حصول اوراِس کے مزے لے کر جینے کا حق تو ہمیں ہے اور ہمارے بچوں بلاول، بختاور، آصفہ زرداری بھٹواور اِن کی بلیوں کو ہی ہے یعنی کہ آج اگرتھر کے بچے قحط اور صحت کی سہولیات اور پینے کے پانی کی عدم فراہمی اور کوئی بسمہ ہمارے بلاو ل کے پروٹوکول کی وجہ سے مریں تو اِس سے اِنہیں کوئی سروکار نہیں ہے مگر اِن کے نزدیک تو بس بلاول ، بختاور، آصفہ زرداری بھٹواور اِن کی بلیوں کی حفاظت کرنا غریب پاکستانیوں اور ماہوار تنخواہ لینے والے سیکیورٹی پر معمور سرکاری اور نجی اہلکاروں کا قومی فریضہ ہے آج جب حکمرانوں، سیاستدانوں اور مُلک پر قابض اقتدار کے پجاریوں ( پی پی پی ، ن لیگ اور دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے سربراہان اور قیادت )کی ایسی سوچ اور ایسے خیالات ہوجائیں تو پھر قوم کے مستقبل کر مُرجھانے اور کمھلانے سے کوئی نہیں روک سکتاہے۔

چلیں ، میں اپنی اِسی بات اور نقطے کو شہیدرانی متحرمہ بے نظیربھٹو صاحبہ کے اِس قولِ عظیم سے آگے بڑھاتا ہوں کہ آپ ایک موقعے پر فرماتی ہیں کہ” صرف اچھے اور تعمیری اور اِنسان دوست خیال کی آزادی ہی کسی قوم کے مستقبل کو پیداکرسکتی ہے، فروغ دے سکتی ہ، پھیلاسکتی ہے اور اِس کی یقین دہانی و ضمانت فراہم کرسکتی ہے، مگر جب ایسے خیال مرجھانے اور کمھلانے لگے توقومیں سُوکھ کرکانٹاہوجاتی ہیں©“۔یقینا شہید متحرمہ بےنظیر بھٹوصاحبہ کا یہ قول اُس وقت تک اپنی جگہہ ٹھیک تھا جب تک یہ حیات تھیں کیوںکہ اِنہوں نے قوم کو اپنے اِسی قول زریں پر چلایا اور قائم رکھاتھااور قوم اور مُلک کو لے جانے کا عزمِ مصمم کیا اور وہ اِسی پر کاربندرہیں۔ مگر آج یہاں مجھے بڑے دُکھ کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہوں کہ متحرمہ بینظیربھٹوصاحبہ کی شہادت کے بعدہی پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ و ادنیٰ قیادت اپنی ہی قائد کے اِس قول زریں پرعمل کرنا بھول گئی۔

بینظیر بھٹوشہید کے شہادت کے بعد ہاتھ آئے اپنے پہلے ہی اقتدار کے پانچ سالوں میں پی پی پی والوں نے نہ صرف قوم بلکہ( اپنی ہی پارٹی کے منشور اور نعرے روٹی ، کپڑااور مکان کے) خیال کی آزادی کے ساتھ کیا کیا نہ کیا…؟؟آج اِسے بھی سب جانتے ہیں اور یہ بھی قوم کو معلوم ہے کہ متحرمہ بینظیر بھٹوشہید کے بعد ہی پی پی پی کے سربراہان کے خیال اور خیالات قوم کے خیال کی آزادی پر پابندی لگانے والے ہوگئے اوراِنہوں نے اپنے دورِ اقتدار کے پانچ سالوں میں قوم کی آزاد خیالی پر ایسے ایسے قدعن لگائے گئے کہ قوم کے خیال کی آزادی برسرِاقتدار پاکستان پیپلز پارٹی اور اِس کی قیادت کی جانب سے ملنے والے مسائل اور پریشانیوں کے شکنجے میں جکڑتے چلے گئے اور یوں آج تک قوم کے خیال کی روٹی کپڑااور مکان کے حصول کی آزادی پر مسائل اور پریشانیوں کے پہرے لگ گئے اور قول کی آزادخیالی پریشانیوں اور مسائل میں گھر کررہ گئی اور اِسی سلسلے کو موجودہ برسرِ اقتدار جماعت پاکستان ن لیگ آگے بڑھارہی ہے۔

PPP

PPP

آج بھی اگر بالخصوص پاکستان پیپلزپارٹی اور بالعموم پاکستان ن لیگ کی قیادت یہ چاہتی ہے کہ اِنہیں اپنا وقار اور مورال قومی اور عوامی سطح پر بلندکرناہے تو پھر اِنہیں اپنی حقیقی اور روحانی سیاسی قائد شہیدرانی متحرمہ بے نظیربھٹو کے اُوپری سطور میں بیان کردہ قول زریںپر پوراکا پورا ڈھالنا ہوگااور قوم کو بنیادی حقوق جیسے مسائل اور پریشانیوں میں پھنسا کر اِس کی خیال کی آزادی پر لگائی گئی پابندی کو خیال اور خیالات کی آزادی کے لئے آزاد کرناہوگا اور ایسا اُسی وقت ممکن ہوگا کہ جب پی پی پی اور ن لیگ کی قیادت قوم کے مسائل حل کریں اور قوم کو اِس کے بنیادی حقوق روٹی کپڑااور مکان دیں تاکہ قوم اچھے اور تعمیری اور اِنسان دوست خیال کی آزادی پروان چڑھے اور قوم اپنے اِس خیال سے اپنے مستقبل کو پیداکرسکے، فروغ دے سکے، پھیلاسکے اور اِس کی یقین دہانی و ضمانت فراہم کرسکے ورنہ آج جس طرح قوم کو مسائل اور پریشانیوں کے دلدل میں دھنسا کر پی پی پی اور ن لیگ نے قوم کی خیال کی آزادی کو ختم کردیاہے یقینی طور پر اِس طرح تو قوم کے خیال مُرجھانے اور کمھلانے لگیں گے اور قوم سُوکھ کر کانٹاہوجائے گی جیساکہ آج کل مہنگائی ، ٹیکسوں کے بیجا لوڈ،کرپشن ، بھوک و افلاس اور دیگر مسائل اور پریشانیوں کی وجہ سے قوم سُوکھ کر کانٹاہورہی ہے۔

بہرحال،آج تھر میں غذائی قلت اور صحت کی سہولیات اور صاف وشفاف پینے کے پانی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی اموات میں ہونے والے اضافے کی بھی اصل ذمہ دار پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی قیادت اور سندھ اور وفاق کی حکومتیں ہی ہیں ، جن کی آپس کی سیاسی چپقلش اِن کی نااہلی اور غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو کہ ناقابلِ معافی جرم ہے، مگر پی پی پی کی قیادت اور سندھ اور وفاق کی حکومتیں ہیں کہ وہ یہ ذمہ داری لینے کو ہی تیار نہیںہے،ایسے میں سندھ حکومت وفاق کے روکھے پیکھے رویوں پر اپنی بے حسی کا رونا رو روکر زمین اور آسمان ایک کئے ہوئے ہے اور سندھ اور وفاقی حکومتوں کی اِس سیاسی لڑائی میں موت کا فرشتہ تھر کے معصوم بچوں پر اپنا ہاتھ صاف کررہاہے اور اِنہیں سندھ اور وفاق حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے غذائی قلت اور صحت کی سہولیات اور صاف وشفاف پینے کے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنے غریب اور مفلوک الحال والدین سے کھینچ کر قبروں کی آغوش میں ابدی نیندیں سُلارہاہے اور معصوم بچوں کی موت پر اِن کے والدین کو تاحیات ماتم کرنے کے لئے چھوڑے جارہاہے۔

تھرکی اِس صورتِ حال پر وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ کا یہ کہناہے کہ ”تھرمیں اگر قحط ہے تو مرداور عورتیں کیوں نہیں مرتیں وہاں صرف بچے ہی کیوں مرتے ہیں؟ بچوں کی ہلاکتیں قحط سے نہیں مریض کے دیر سے ہسپتال پہنچنے سے ہوتی ہیں،جبکہ اِن کہنا ہے کہ ہم نے توتھرپارکر میں چار سے پانچ ارب خرچ کرچکے ہیں “ مگردوسری طرف وفاق ہے کہ ابتک اِس نے تھرپارکر کی صورتِ حال موت کے منہ جاتے معصوم بچوں کے اضافے پرسنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے اُلٹاسندھ حکومت کی مظلومیت کاتماشہ دیکھ رہاہے آج اگر سندھ حکومت تھرکے قحط سے مرنے والے بچوں پر سیاست کرکے سروں کا مینا ربنارہی ہے تو کم از کم وفاقی حکومت کی تو یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تھر کے غذائی قلت اور صحت کی سہولیات اور صاف وشفاف پینے کے پانی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی اموات میں ہونے والے اضافے پر سنجیدگی سے توجہ دے اور تھر سے قحط کو ختم کرانے کے اقدامات کرے تاکہ سندھ حکومت مرنے والے بچوں کے سروں پر سیاست نہ کرسکے اور وفاق اپنی ذمہ داریوں سے سُرخروہوجائے۔

Azam Azeem Azam

Azam Azeem Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com