تھرپارکر : غذائی قلت سے 92 بچے جاں‌ بحق، بچے تو پہلے بھی فوت ہوتے تھے، قائم علی شاہ

Tharparkar Child

Tharparkar Child

تھرپاکر (جیوڈیسک) تھرپارکر میں بھوک اور بیماری نے زندگی عذاب بنا دی، آج مزید سات پھول مرجھا گئے، ڈیڑھ ماہ میں بانوے بچے لقمہ اجل بن گئے، چھاچھرو اور ڈاھلی میں متاثرین گیسٹرو اور نمونیے کی آفت بھی آن پڑی۔

وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ تھرپارکر میں بچے پہلے بھی فوت ہوتے تھے لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ تھرپارکر میں غذائی قلت سے زندگی تھر تھر کانپنے لگی۔ غربت، بھوک اور امراض قہر بن کر ماؤں کی گود اجاڑ نے لگے۔ درجنوں بچے، زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

ہسپتالوں میں ناکافی انتظامات نے لوگوں کی مشکلات مزید بڑھا دیں لیکن بے کسوں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں، انتظامیہ کی بےحسی نے انہیں بےبسی کی تصویر بنا دیا ہے۔ غربت اور بھوک کے ماروں پر گیسٹرو اور نمونیا کی آفت بھی آن پڑی۔ کئی علاقوں میں لوگ ابھی بھی امدادی گندم کے منتظر ہیں۔ چھاچھرو شہر کو ملنے والی دو کروڑ روپے کی گرانٹ سے بھی پندرہ ہزار افراد کی آبادی کے لیے پانی کا خاطرخواہ بندوبست نہ کیا جا سکا۔

سیکڑوں کنویں خشک ہونے کے باعث لوگ پانی کی بوند بوند کر ترس گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ تھرپارکر میں پہلے بھی بچے فوت ہوتے تھے لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا، سندھ حکومت مفت گندم دے رہی ہے۔ تھرپارکر کے باسیوں کوشکایت ہے کہ وڈیروں اور سیاسی مداخلت کے باعث صوبائی حکومت کے دعوے عملی صورت میں نظر نہیں آ رہے۔