تھرپارکر میں قحط کے باعث لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔تھر میں جاری خشک سالی نے ہزاروں خاندانوں کو دو وقت کی روٹی کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔پانچ بچوں اور شوہر پر مشتمل پچیس سالہ پارتی بھیل کے گھرانے نے آخری مرتبہ گوشت یا گھی کا ذائقہ کب چکھا کچھ یاد نہیں۔ پارتی بھیل نے کہا کہ بھوک مٹانے کے لئے مرچ کوٹ کر کھاتے ہیں، کبھی سبزی بھی مل جاتی ہے،گوشت تو نہیں بس مرچ اور پیاز ہی کھاتے ہیں۔ مقامی زمیندار کے تعاون سے کچی جگہ تو مل گئی لیکن روز کا کھانا فراہم کرنا کبھی اسکے لئے بھی ممکن نہیں رہتا۔ سفر اور نقل مکانی کی صعوبتیں، اوپر سے کم اور غیر مناسب خوراک نے ایسے ہزاروں خاندانوں کو مختلف جسمانی اورذہنی مسائل میں بھی مبتلا کردیا۔بھوک کی اس صورتحال نے تھر کے جفاکش اور سخت جان لوگوں کو بھی نڈھال کرنا شروع کردیا۔قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی32صفحات پر مشتمل مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق تھر میں قحط ،خشک سالی اور اس بارے میں حکومتی غفلت سے انسانی زندگیاں دائو پر لگ گئی ہیں۔روزانہ اوسطاَ دو بچوں کی اموات واقع ہو جا تی ہیں۔پورے سندھ میں تھرپارکر کا انسانی ترقی کا اشاریہ کم ترین سطح پر ہے۔غذائی قلت،بیماریوں اور وبائی امراض سے10ماہ میں جہاں پورے ملک میں 2800بچوں کی اموات ہوئیں ان میں 1380بچے تھرپارکر میں جاں بحق ہو ئے۔2015میں جاں بحق بچوں کی تعداد 670رہی۔اس کی سب سے بڑی وجہ غذائی عدم تحفظ بتائی جا تی ہے۔تھر کی76فیصد آبادی کے پاس خوراک کا کوئی ذخیرہ نہیں ،وہ روزانہ کی دستیابی پر گزار بسر پر مجبور ہیں اور جب کسی دن کھانے کو نہ ملے تو فاقے پر گزارا کر نا پڑتا ہے۔
جیسے جیسے بحران شدت اختیار کر تا جا رہا ہے ،تھر کے باشندوں کو اپنے ہزاروں مویشیوں سے ہاتھ دھونے پڑ رہے ہیں۔قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے وفاق اور سندھ کی حکومتوں کو خبر دار کیا ہے کہ آئندہ مہینوں میں تھر کے بچوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوں گے ،اگر بروقت اور فوری اقدامات نہ کئے گئے تو کوئی بھی بڑا انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی ،اس کا صوبائی ادارہ اور موسمیات سے متعلق ادارے بھی خاموش تماشائی بنے ہو ئے ہیں۔قومی خزانے اور ٹیکس دہندگان سے بھاری تنخواہیں لینے کے باوجود اپنی ذمہ داریاں کماحقہ انجام نہیں دے رہے۔تھر کی13لاکھ آبادی کے لئے ایک ڈسٹرکٹ اسپتال،دو دیہی صحت کے مراکز اورتین تعلقہ اسپتال موجود ہیںلیکن یہ اکثر عملے ، ادویات اور ڈاکٹروں کی مطلوب تعداد سے محروم رہتے ہیں۔13لاکھ میں سے نصف سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔2300میں سے صرف250دیہات کو سڑکوں تک رسائی ہے۔باقی کچے راستوں سے گذر کر ہی ”مہذب دنیا”سے رابطے میں آتے ہیں۔
بجلی دستیاب نہ ہو نے سے اندھیروں کا راج رہتا ہے۔دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے لیکن تھر کے باشندوں کے لئے دنیا ابھی تک کسی سیارے کی مانند ہی ہے جس تک رسائی ان کے لئے ممکن نہیں۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن گزشتہ 13 سال سے تھر کے دور افتادہ علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے کام کررہی ہے اور آنے والے وقت میں بھی اس کام کو مزید وسعت دی جائیگی۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرؤف کی ہدایت پر تھرپارکر میں قحط اور خشک سالی سے سخت متاثر ہونے والے افراد کی بحالی کیلئے ریلیف کے کاموں کو مزید تیز کردیا گیا ہے ، تھرپارکر کے دور دراز علاقوں میں ہونیو الی پے درپے اموات کے پیش نظر فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ڈاکٹروں کی مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جن میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹر شامل ہیں ، یہ ٹیمیں دور دراز علاقوں میں جاکر بیمار افراد کا نہ صرف علاج کررہی ہیں بلکہ انہیں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے بھی آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ تھرپارکر متاثرین کیلئے بڑے امدادی آپریشن کا آغاز کر دیا۔لاہور سے ایک ہزار خاندانوں کیلئے35لاکھ روپے کا خشک راشن اور ملبوسات روانہ کر دیے۔ ملک بھر کے دیگر شہروں سے بھی امدادی سامان روانہ کریں گے۔
تھرپارکر سندھ میں 28سو واٹر پروجیکٹ مکمل کر لئے۔ مسلمانوں کی طرح ہندوؤں کی بھی مدد کر رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے 35سو خاندانوں میں راشن تقسیم کیا۔ایف آئی ایف تھرپارکر سندھ میں سولر سسٹم کے ذریعہ ٹیوب ویل چلا رہی ہے۔ جہاں ریت اڑتی تھی وہاں کھیت آباد اور فصلیں اگ رہی ہیں۔گزشتہ دنوں لاہورسے بھجوائے جانے والے امدادی سامان میں شامل خشک راشن میں آٹا، چاول، گھی، چینی، دالیں و دیگر اشیاء جبکہ سردیوں میں استعمال کیلئے گرم بستر، گفٹ آئٹم اور دو ہزار خواتین اور بچوں کیلئے کپڑے اور جوتے شامل ہیں۔ اس وقت تھرپارکر میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط کی صورتحال ہے۔ان کی مدد کیلئے لاہور سے ابتدائی مرحلہ میں 35لاکھ روپے مالیت کا امدادی سامان روانہ کر رہے ہیں جس میں ایک ہزار خاندانوں کے لئے خشک راشن،دو ہزاربچوں کے کپڑے،جوتے اور گفٹ آئٹم،دو ہزار خواتین کے لئے کپڑے جوتے اوربستروغیرہ شامل ہیں۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن تھرپارکر میں مزید دس واٹر پروجیکٹ کا آغاز کر رہی ہے جن کا افتتاح چند دنوں میں کر دیا جائے گا۔
فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پچھلے کئی برسوں سے تھرپارکر میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ بیرونی قوتیں پاکستان کوامدادیں دیکر غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا چاہتی ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ریلیف کا کام خود کریں۔جلد لاہور کی طرح ملک بھر کے دیگر شہروں سے بھی تھر پارکر متاثرین کے لئے امدادی آپریشن شروع کر رہے ہیں۔جماعة الدعوة تھرپارکرمیں متاثرہ مسلمان خاندانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کی بھی بلا امتیاز مدد کر رہی ہے۔ سندھ حکومت کی تھرپارکر میں بھوک اور پیاس کے سبب پیدا ہونے والے انسانی بحران پر خاموشی افسوس ناک ہے ، بچوں کی قحط سالی سے موت حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے ، عوام کو اس انسانی بحران اور مسائل سے باہرنکالنے کے لئے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ناکام پالیسیوں کی بدولت آج سندھ حکومت ہر شعبے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔