تھرپارکر میں مسکراتے چہرے

Tharparkar Children

Tharparkar Children

تحریر: محمد عبداللہ
میں پچھلے تین دن سے تھرپارکر میں موجود ہوں۔تھرپارکر سندھ کا ایک بہت بڑا ضلع ہے جس کی کل آبادی1649661 ہے۔ اس میں سے تقریباً 5 صد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔اس کے شمال میں میرپور اور عمر کوٹ کے اضلاع، مشرق میں بھارت کے بارمیر اور جیسلمیر، مغرب میں بدین کا ضلع اور جنوب میں رن کچھ کا علاقہ ہے۔ ضلع کا کل رقبہ19638کلومیٹر ہے۔1990تک میرپور اور عمرکوٹ کے اضلاع تھرپارکر کا حصہ تھے۔عمر کوٹ کو 1993 میں الگ ضلع بنا دیا گیا تھا۔تھرپارکر کا صدر مقام مٹھی ہے۔

انتظامی حوالے سے تھرپارکر کو 4 تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن میں مٹھی،چھاچھرو، ڈیپلو اور ننگرپارکر ہیں۔ تھرپارکر کا زیادہ تر حصہ صحرائے تھر پر مشتمل ہے۔ویسے تو تھرپارکر کو پاکستان میں ایک مفلوک الحال علاقے کے طور پر جانا جاتا ہے مگر ذرائع ابلاغ پر تھرپاکر اس وقت زیادہ نمایاں ہوا جب یہاں پر قحط پڑا اور یہاں کے باشندے اور ان کے اموال بھوک کی وجہ سے مرنا شروع ہوئے۔ماؤں کی غیر تسلی بخش حالت کی وجہ سے کمزور نوزائیدہ بچوں کی اموات نے بھی تھرپارکر کو ذرائع ابلاغ پر نمایاں کیا۔ تھرپارکر چونکہ صحرا پر مشتمل ہے تو یہاں کے باشندوں کا ذریعہ معاش بکریاں، گائیں اور اونٹ پالنا ہے۔ اگر کبھی بارشیں ہو جائیں تو صحرا میں کہیں کہیں آپ کو چھوٹی چھوٹی کھیتیاں بھی نظر آجاتی ہیں۔ مگر جب کبھی بارش کو تاخیر ہوجائے تو جانوروں تک کے لیے گھاس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جانور مرنا شروع ہو جاتے ہیں اور تھری باشندوں کو افلاس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تھرپارکر کے مسائل میں سے سب سے بڑے مسائل پانی کی کمیابی، صحت و صفائی کی سہولیات کی عدم فراہمی اور کوئی کاروبار نہ ہونا ہیں۔

یوں تو تھرپارکر میں بہت ساری ملکی و غیر ملکی NGO’s کام کر رہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ حکومت بھی ہر سال تھرپارکر کے لیے کروڑوں ، اربوں کے فنڈز محتص کرتی ہے مگر یہ سب فنڈز تجوریوں تک ہی محدود رہتے ہیں اور تھری باشندوں کو پتا بھی نہیں پڑتا کہ ان کے نام پر لوگ کتنے اربوں روپے کے فنڈز پر ڈکار مار جاتے ہیں۔یوں تھرپارکر کے لوگوں کے مسائل جوں کے توں موجود رہتے ہیں۔مگر کچھ تنظیمیں اور کچھ افراد ایسے بھی ہیں جن کے دل تھرپارکر کی غربت و افلاس اور قحط پر کڑھتے ہیں اور وہ اپنے وسائل سے آگے بڑھ کر ان لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کتنے سالوں سے مصروف عمل ہیں اور الحمدللہ وہ اپنی کوششوں اور کاوشوں میں بہت حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ انہی لوگوں میں سے ایک نام حافظ عبدالرؤف اور ان کی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پاکستان کا بھی ہے۔راقم پچھلے تین دنوں سے حافظ عبدالرؤف کے ساتھ تھرپارکر میں موجود ہے۔ حیدرآباد سے صبح 4 بجے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی گاڑی پر تھرپارکر کی طرف روانہ ہوئے۔ فجر کی نماز ٹنڈو باگو میں ادا کرکے ہم ملکانی شریف پہنچے جہاں سندھ کے معروف صحافی اور سماجی شخصیت خالد سیف سے ان کے والد کی وفات پر تعزیت کی اور اس کے بعد پرتکلف ناشتہ کیا۔وہیں پر ایک اور سماجی شخصیت طیب گھمن بھی ہمارے ہمسفر ہوئے۔

ملکانی سے نکل کر ہم تھرپارکر کی تحصیل ڈیپلو اور بعد ازاں دور دراز کے گوٹھوں میں گئے۔ وہاں پر مختلف سولر پمپس اور مساجد و مدارس کا افتتاح محترم حافظ عبدالرؤف نے کرنا تھا۔سارا دن کچے پکے راستوں پر صحرا کی خاک چھانتے ہوئے اورتھرپارکر میں قدرت کے بخشے حسین وادیوں اور صحرائی بلند و بانگ ٹیلوں کو دیکھتے ہوئے ہم رات مٹھی شہر پہنچے تو جسم تھکاوٹ سے چور چور تھا اس لیے جاتے ہی بستروں پر گرے اور مٹھی میں میٹھی نیند کے مزے لینے لگے۔ اگلے دن فجر کے بعد فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی مقامی انتطامیہ کی طرف سے ایک پرتکلف ناشتے کے بعد ہم اسلام کوٹ کی طرف عازم سفر تھے۔اس سفر میں ہمارے ساتھ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن تھرپارکر کے ذمہ داران محمد سرور، محمد صدیق، ابو عمار نیازی اور ان کے ساتھ لاہور سے تشریف لائے کچھ مہمان بھی شامل تھے۔

سارا دن اسلام کوٹ اور اس کے گوٹھوں میں مختلف پراجیکٹس کا افتتاح کرتے اور پروگرامز کرنے کے ساتھ ساتھ ہم تھرپارکر میں حسین و جمیل وادیوں اور تاحد نگاہ پھیلے ریت کے ٹیلوں کی خوبصورتی سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے۔ تیسرے دن پھر فجر کی نماز کے ساتھ ہی ناشتے کے لیے بلا لیا گیا اور پھر سے گاڑیوں میں اپنی اپنی نشستیں سنبھالے ہم بندہ صحرائی بننے کے لیے تیار تھے۔ دوران سفر حافظ عبدالرؤف بتا رہے تھے کہ ہم انیس سو نناوے سے تھرپارکر میں موجود ہیں اور ہم نے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ جب جانور اور انسان ایک جگہ سے پانی پیتے تھے، جب تھر کی عورتیں سر پر گھڑے رکھے دسیوں میل کی دوری سے پینے کے لیے پانی لے کر آتی تھیں۔وہ بتا رہے تھے کہ ہم نے تھر میں ایسے ایسے مسائل دیکھے ہیں کہ مہذب دنیا ان مسائل کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ہے۔ بہت ساری تنظیمیں اور لوگ فقط مٹھی تک آتے ہیں اور اسی کو تھرپارکرسمجھ کر مطمئن ہوکر لوٹ جاتے ہیں۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے انیس سو نناوے سے لے کر اب تک تھرپارکر میں دو ہزار کے لگ بھگ میٹھے پانی کے کنوئیں بنا کر دیے ہیں۔خود کفالت پروگرام کے تحت لوگوں میں بکریاں، بیوہ عورتوں میں سلائی مشینیں اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کی جاتی رہی ہے۔

حافظ عبدالرؤف بتا رہے تھے کہ اب جبکہ پانی کے بہت سارے مسائل حل ہوچکے ہیں تو فلاح انسانیت فاؤنڈیشن،تعلیم و تربیت، صحت و صفائی اور ذریعہ معاش کے پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔ ماضی میں جب تھرپارکر میں قحط کے سبب اموات اور مختلف بیماریاں پھیلی تھیں تو پورے تھرپارکر میں طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہوا تھا اس لیے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اس وقت تھرپارکر میں ہنگامی بنیادوں پر طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے لیے مٹھی شہر میں اور اسلام کوٹ میں جدید ٹیکنالوجی سے مزین دوہسپتال قائم کیے جارہے ہیں۔ ان میں سے مٹھی والا ہسپتال تو ان شاء اللہ جنوری 2018 میں علاج و معالجہ کے لیے شروع کردیا جائے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ تھرپارکر کے لوگوں کا بہت بڑا مسئلہ کوئی انڈسٹریل سیکٹر موجود نہ ہونے کی وجہ سے روزگار کا کوئی سلسلہ نہ ہونا ہے۔ یہ لوگ بہت مشکل سے لق و دق صحرا میں تھوڑی بہت زمین کو کاشت کاری کے قابل بناتے ہیں مگر بارش نہ ہونے کی وجہ سے وہ زمین بھی بنجر ہوجاتی ہے۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اس وقت لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے لی اس پراجیکٹ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ اسی سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے زرعی سولرواٹر پمپس لگاکردیے جا رہے ہیں جس سے عشروں سے بنجر صحرا میں سبزہ اگنا شروع ہوا ہے۔تھرپارکر کے مقامی لوگ بتا رہے تھے کہ جب ان زرعی سولر واٹر پمپس کے ذریعے مختلف سبزیاں اور اناج اگایا گیا تو وہاں موجود تھری باشندوں کی آنکھوں میں فرط مسرت سے آنسو رواں تھے۔ صحرا کے بیچوں بیچ سبزیاں اور اناج اگتا دیکھ کر لوگوں کے چہرے مسکرا رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اسکولز، مساجد اور درسگاہوں کا وسیع و عریض جال بچھایا جا رہا ہے۔ لوگوں کو صحت و صفائی کے سلسلے میں آگہی دی جارہی ہے۔ ان کی دنیا کے ساتھ ان کے دین کی فکر کرتے ہوئے تبلیغی پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں۔ اب تک فلاح انسانیت فاؤنڈیشن تھرپارکر میں بیسیوں مساجد مکمل کر چکی ہے اور بہت سارے پراجیکٹس زیرتکمیل ہیں۔ تھرپارکر میں چونکہ بہت بڑی تعداد ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے تو فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جہاں مسلمانوں کی مدد کر رہی ہے اسی طرح بغیر کسی تفریق کے ہندوؤں کی بھی برابر کی سطح پر خدمت کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے یہ لوگ بھی حافظ عبدالرؤف اور ان کی جماعت فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا لوگ دل سے احترام کرتے ہیں اور ان کے استقبال میں آنکھیں بچھاتے ہیں۔ راقم نے بھی ان تین دنوں میں لوگوں کی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ساتھ محبت کے وہ وہ مناظر دیکھے ہیں جو بیان سے باہر ہیں۔

جیسے ہی ہماری گاڑیاں کسی گوٹھ میں پہنچتیں تو وہاں پر پہلے سے جمع بچے، بوڑھے اور جوان زبردست نعرے لگاتے ہوئے ہار پہنا کر استقبال کرتے اور واپسی پر سندھی روایات کے مطابق اجرک کے تحفے سے نوازتے۔ تھرپارکر کے لوگوں کا مہمان نوازی کا انداز بھی ہمیں بہت بھایا کہ اگرچہ غریب ہیں مگر مہمان کی آمد پر ایسی ایسی نعمتیں اور کھانے کی چیزیں پیش کرتے ہیں جن کا صحرا میں سوچنا بھی محال ہے ۔لوگوں سے جب اس محبت اور استقبال کی وجہ دریافت کی تو بتانے لگے کہ جب ہم بھوک سے مر رہے تھے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ہی ہمیں بچانے کے لیے آئی تھی اس لیے ہمارا سب کچھ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے لیے حاضر ہے۔ حافظ عبدالرؤف کے ساتھ راقم نے ان تین دنوں میں تھرپارکر کے دور دراز علاقوں میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے سینکڑوں پراجیکٹس دیکھے جو یہ تنظیم ملک بھر کے مخیر حضرات کے تعاون سے تھرپارکر میں جاری رکھے ہوئے اور انہی پراجیکٹس کی وجہ سے تھرپارکر کے مفلوک الحال اور غریب عوام کے چہرے آج مسکرانے کے قابل ہوئے ہیں۔

Muhammad Abdullah

Muhammad Abdullah

تحریر: محمد عبداللہ
7885196@gmail.com
03346419973