تھر کے دکھوں کا مداوا کون کرے

Tharparkar Child

Tharparkar Child

تحریر : ساجد حسین شاہ
سندھ کے مختلف ہسپتالوں میں لاچار اور غریب عورتیں بین کر رہی ہیں ان کی حالت چیخ چیخ کر ان کی آپ بیتی سنا رہی ہے کیو نکہ آج وہ اپنی سب سے انمول چیز یعنی اپنی اولاد سے محروم ہو گئیں انکی غموں بھری یہ سسکیاں ہمارے کانوں میں ڈلے ہو ئے سیسوں کو پگھلا نہیں سکتیں ہاں البتہ جہاں ہمیں اپنا آپ نمایاں کرنا ہو اور اپنی خوشامد کروانی ہو تو ایسی پکار فورا ًہمارے کا نوں میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے مگر رات دن ان بڑھتی ہوئی سسکیوں کی طرف کوئی کان دھرنے کو تیار نظر نہیں آتا سندھ کے ہسپتالوں کے باہر یہ لوگ افریقہ کے کسی بد حال خطے سے سیر و سیاحت کر نے نہیں آ ئے بلکہ یہ لوگ بھی پاکستانی ہیں اور بھوک وافلاس کے مارے ہمارے ہی ایک شہر تھرپار کر سے آ ئے ہیں۔

اس میں تو کو ئی شک نہیں کہ سا نحہ پشا ور میں ہو نے والی بربریت کی مثال تا ریخ میں نہیں ملتی مگر سا نحہ پشاور کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہمیں ان معصوم شہداء کے قا تلوں کا پتہ تو چل گیااور ہماری سیاسی اور عسکری قیادت ان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدام بھی کر رہی ہے مگر تھر میں بھوک اور ادویا ت کی کمی کی وجہ سے جن ما ئو ں کی گو دیں اجڑ رہی ہیں اسکی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہ کی ۔ہما رے خلیفہ دوئم حضرت عمر فا روق رضی اللہ عنہ نے فر ما یا تھا کہ اے عمر اگر دریا کے کنا رے ایک بھوکا کتا بھی مر گیا تو اس کا حسا ب تم سے ہو گااور اس کے لیے سا ری ساری رات گلیوں میں گشت کرتے رہتے تھے اسکے برعکس ہما رے موجودہ حکمران اور سیاسی رہنمابڑے بڑے محلوں میں عا لیشان زندگی بسر کر رہے ہیںجبکہ عام آدمی ان جیسی زندگی تو دوردو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے ایک اندازے کے مطا بق رواں سال میں پا نچ سو کے قریب لوگ جن میں تین سو بچے شا مل ہیں لقمہ اجل بن چکے ہیں تھر پارکر سندھ کے جنوب مشرق میں واقع ہے جسکا صحرائی حصہ بھارت کے سا تھ ملا ہوا ہے یہاں کی نوے فیصد آبادی گا ئوں میں مقیم ہے یہاں چونسٹھ فیصد مسلمان اور چھتیس فیصد ہندوں آ با د ہیں یہاں کے لوگوں میں گجراتی ،راجھستانی اور سندھی کلچر کا عکس نمایاں ہے تھر کے لوگ اپنی سخت محنت اور مہمان نوازی کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں اسیّ فیصدسے زائدآ با دی کی معاش کا دارومدار کھیتی اور مویشی پا لنے پر ہے حا لیہ سا لوں میں یہاں کے بچوں میں خطرناک حد تک pneumonia کی بیما ری پھیل رہی ہے جسکی بنیادی وجہ بھوک و افلاس اور طبی سہو لتوں کا نہ ہو نا ہے صو با ئی یا وفاقی حکومت کی جا نب سے اس مسئلہ پر مستقل طور پر قا بو پا نے کے لیے ابھی تک کو ئی خا طر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔

Government of Sindh

Government of Sindh

حکومت سندھ کے پاس ان اربوںروپے کا کوئی حساب نہیں جو تھر کے غریب لوگوں کے لیے مختص تھے پچھلے چند سا لوں سے زیا دہ با رش نہ ہو نے کی وجہ سے یہا ں کے لو گوں کو پا نی کی کمی کا شدت سے سامنا ہے ان سب مشکلات کی بنا پر تھر کے رہائش پذیر لوگ وہاں سے نقل مکانی کر نے پر مجبور ہیںکثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو مالی وجو ہا ت کی بنا پر وہیں مقیم ہیں اور وہا ں نا قابل بر داشت زندگی گرار رہے ہیںاور دوسری طرف سندھ میں حکمرانی کا جدید طرز عمل ابھر کرسا منے آ رہا ہے جسمیںسندھ کو در پیش آ نے وا لے ہر مسئلے پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماایک دوسرے کے خلا ف بیان با زی سے اپنی اپنی سیاست چمکا تے ہیں اور پھر اپنے مخملی بستروں میںگہری نیند کے مزے لینے اپنی اپنی خواب گاہوں میں چلے جا تے ہیں جسکی ایک مثال گزشتہ رات ٹمبر مارکیٹ کراچی میںلگنے والی آ تشزدگی ہے جہاں کروڑوں روپے کی لکڑی جل کر خا ک ہو ئی اور کئی شہری اپنا آشیا نہ کھو بیٹھے بہت سے غریب لو گوں کی ساری زندگی کی جمع پونجی اس آ گ کی نذر ہو گئی پیپلز پا رٹی اور ایم کیو ایم جو پچھلے کئی سالوں سے اس صو بے پر حکمرانی کر رہے ہیںدونوںپارٹیز نے پریس کا نفرس کی ایک دوسرے پر الزامات کی بو چھا ڑ کی اور چلتے بنے یہی وجہ ہے کہ سندھ کی خوشحا لی بدحالی اورپسماندگی میں تبدیل ہو رہی ہے دونوں پا رٹیز وزارتوں کی تقسیم میں ہمیشہ سے الجھتی آئیں ہیں مگر کبھی بھی سندھ کی ترقی کے لیے سنجیدگی سے ایک سا تھ مل کر کام کر نے کو تر جیح نہیں دی گئی جو کہ کسی بھی حکمران جماعت کی اولین ترجیح ہو نی چا ہیے ایسا ہی کچھ معا ملہ تھر کے لو گوں کے ساتھ پیش ہے جہاں سندھ حکومت ان مصیبت زدہ حا لا ت کے سدباب کے لیے کوئی ایکشن پلا ن تیار کرتی ہو ئی دور دور تک دکھا ئی نہیں دے رہی۔

ہمارے حکمرانوں کی طرح ہماری انجیوز بھی اس واقعے سے نا لاںنظر آ تی ہیںپا کستان میں موجود بہت سا ری انجیوز جو کہ غر بت کے خلا ف لڑ نے کی دعودار ہیںانکے بھی ظاہری اور باطنی اعمال میں تضاد نظر آ تا ہے اگر ان انجیوز کو پا کستان میں مختارہ ما ئی جیسا کو ئی کیس مل جا ئے اور جسکو کو لے کر پا کستان کو بین الاقوامی سطح پر بد نا م کر نامقصود ہو تو یہ سب سے آ گے نظر آ ئیں گے گماں گزرتا ہے کے انھیں شا ید کو ئی پا کستان کو بد نام کر نے کا معا وضہ عطا کر تا ہے کیو نکہ اگر یہnon governmental organization صحیح معنوں میں اپنا کام کر تیںتو تھر کے ان شیر خواروں کی آ واز انکے کا نوں میں اتنی ہی جلد پہنچتی جتنی کے مختارہ ما ئی کی پہنچی تھی۔

ا ج بہت سارے تھر کے پا کستانی پانی اور خوراک کی کمی کی وجہ سے موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں مگر ان نام نہاد انجیوز میں کو ئی ایک بھی ایسی نہیں جو آ گے بڑھ کر ان لا چا ر لو گوں کو سہارا دے سکے حکومت پا کستان کو ان تمام انجیوز کا آ ڈٹ کرنا چا ہیے کہ ان کو امداد کو ن فراہم کر رہا ہے اور اس فراہم کر دہ امداد کو کس مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ہم اے سی کمروں میں میٹنگ کرتے ہو ئے یا کسی آرٹ گیلری کی نما ئش میں دیوار پر لگی ان بھو کے ننگے بچوں کی تصویر دیکھ کر جوس کی چسکی لیتے ہو ئے یہ تو کہہ دیتے ہیں افسوس !کتنی غر بت ہے مگر کو ئی عملی اقدام کر نے کو تیا ر نہیں۔

Sajid Hussain Shah

Sajid Hussain Shah

تحریر : ساجد حسین شاہ
ریاض، سعودی عرب
engrsajidlesco@yahoo.com
00966592872631