تین روزہ ” دی بیلٹ اینڈ روڈ ” بین الاقوامی تعاون کا دوسرا فورم بیجنگ میں افتتاح پزیر ہو چکا ہے۔ 150 سے زائد ممالک اور90 سے زیادہ بین الاقوامی تنظیموں کے تقریباً 5 ہزار نمائندے اس فورم میں شریک ہیں۔ وزیر اعظم نے دورہ چین کا شیڈول تبدیل کرتے ہوئے 27اپریل کے بجائے25اپریل پہنچے۔ موصولہ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم دورے کے دوران چینی صدراور دیگر اعلیٰ حکام سمیت آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر اور ورلڈ بینک کی سی ای او سے بھی ملاقاتیں شامل تھی ۔ شیڈول کے تحت 26 اپریل کو بیلٹ اینڈ روڑ فورم سے چینی صدر شی جن پنگ اور دوسرے سیشن میں عمران خان نے خطاب کیا۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹینا لیگارڈ سے ملاقات میں آئی ایم ایف پیکج پر پیشرفت اور ملکی معاشی صورتحال ایجنڈے کا حصہ رہے۔ ملاقات میں نئے قرض پروگرام سے متعلق بڑی پیش رفت کا امکان ہے،معاملات طے پانے کی صورت میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض مل سکے گا۔سی ای او کرسٹا لینا جیورجیوا سے ملاقات میں مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد بھی شریک ہوئے۔ پاکستان کرسٹا لینا جیورجیوا کو حکومت کی نئی معاشی پالیسیوں سے آگاہ کیا گیا۔ْ حتمی بات چیت کے بعد پاکستان کو عالمی بینک سے بھی قرض ملنے کا امکان ہے۔ علاوہ ازیں شیڈول کے مطابق 27 اپریل کو چینی صدرانٹرنیشنل کانفرنس سینٹر میں وزیراعظم کا استقبال کریں گے۔ترقی کے نئے ذرائع کے موضوع پر عمران خان کا خصوصی خطاب ہوگا۔ اسی روز اقوام متحدہ کے ترقیاتی ایجنڈا 2030 کے سیشن میں شرکت کے علاوہ عمران خان چین کی نائب صدر سے ملاقات بھی کریں گے۔جبکہ 28 اپریل کوعمران خان چینی صدرشی جن پنگ سے ون آن ون ملاقات کریں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور چین کے درمیان مختلف معاہدے ہوں گے۔ ہواوے کمپنی چیف سے ملاقات، پاک چین ٹریڈ انویسٹمنٹ فورم کا ظہرانہ، چین کی ثقافتی نمائش 2019 میں شرکت،عالمی نمائش میں پاکستانی اسٹال اور مقامی آٹو موبائل کمپنی کے ہیڈکوارٹرز کا دورہ بھی شیڈول میں شامل ہے۔
وزیر اعظم کی اپنی حکمرانی میں چین کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ اس قبل وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے بعد دفتر خارجہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر دورے پر صرف یہ سوال نہیں ہونا چاہیے کہ ملا کیا ہے ۔دوروں میں کچھ اور بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم کے دورہ چین کو مفید قرار دیا تھا ان کا کہنا تھا کہ دورہ چین کے چار مقاصد تھے، چین کی بھی خواہش تھی کہ ہم دورہ کریں۔انہوں نے کہا تھاکہ” چین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت منفرد ہے، چین کے ساتھ تعلقات اسٹریٹیجک تو تھے ہی تجارت تک لے جانا چاہتے تھے، اسٹریٹجک تعلقات کو معاشی شراکت داری میں بدلنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے”۔ دورے کے اختتام پر 15 معاہدوں اور سمجھوتوں پر دستخط ہوئے تھے۔حکومت نے وزیر اعظم کے پہلے دورے کو انتہائی کامیاب قرار دیا تھا۔
دورہ ایران کے بعد دورہ چین کو ایک خاص نکتہ زاویہ سے بھی دیکھا جارہا ہے کیونکہ جس طرح کوسٹل ہائی وے دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا ۔ اس سے براہ راست سی پیک پر منفی اثرات پڑنے تھے۔ اس حوالے سے چین کو بھی تحفظات ہونگے جو چینی صدر سے ون آن ون ملاقات میں یقینی طور پر زیر بحث آئیں گے۔ سعودی عرب کی سی پیک منصوبوں میں شراکت کے معاہدوں پر بھی پاکستان اپنی معاشی حالات کا نکتہ نظر سامنے رکھے گا ۔ اس لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سی ای او سے ملاقاتوں میں چینی اثررسوخ بھی اہم کردار ادا کرے گا ۔ پاکستان میں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ گوادر ائیر پورٹ کی تعمیر کے لئے سنگ بنیاد رکھا جاچکا ہے۔ایسٹ بے ایکسپریس منصوبے میں گزر گاہوں کی تعمیر ، گوادر میں پانی و بجلی کے مسائل کے حل کے لئے پاور اور ڈیسلنیشن پلانٹ کے منصوبے جبکہ گوادر کو قومی گرڈ سے ملانے ،گوادر گر ین اور کلین منصوبہ ، واٹر ٹر یٹمنٹ پلانٹ اورگوادر کو ریلوے لائن کے راستے کوئٹہ سے منسلک کرنے کے لئے بھی منصوبہ بندی بھی کی جارہی ہے۔وزیر اعظم کے دورہ چین پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں تعینات چینی سفیر یا جنگ نے کہا ہے کہ” وزیراعظم پاکستان کا دوسرا دورہ چین بہت اہم ہو گا،سی پیک کے دوسرے مرحلے کی ابتدا ہے،وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے دوران صنعت،زراعت اورسوشل تعاون کے فروغ کے معاہدوں پر دستخط ہوں گے،پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی عدم استحکام کو ختم کرنا چاہتے ہیں،آٹھ سال کے مذکرات کے بعد آزادانہ تجارتی معاہدہ دوم کو حتمی شکل دی۔پاکستان میں تعینات چینی سفیر یا و جنگ نے کا مزید کہنا تھا کہ پہلی بار پاکستان اور چین کے مابین کلچرل تعاون شروع ہوا ہے، اس سے پہلے دونوں ممالک کے مابین انڈسٹریل تعاون تھا،وزیراعظم پاکستان کا دوسرا دورہ چین بہت اہم ہو گا،سی پیک کے دوسرے مرحلے کی ابتدا ہے،دونوں ممالک کے رہنماں کے درمیان صنعتی اورسوشل تعاون بڑھانے پر اتفاق ہے،وزیر اعظم کے دورہ چین کے دوران صنعت،زراعت اورسوشل تعاون کے فروغ کے معاہدوں پر دستخط ہوں گے،پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی عدم استحکام کو ختم کرنا چاہتے ہیں،آٹھ سال کے مذکرات کے بعد آزادانہ تجارتی معاہدہ دوئم کو حتمی شکل دی۔
حکومت کے ناقدین وزیراعظم کے پہلے دورے کی مکمل تفصیلات سے آگاہ نہیں تھے ۔ گو کہ بعد میں وزیر خارجہ نے واضح کیا ۔ لیکن جس طرح عرب ممالک سے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے پیکجز دیئے تھے لیکن چین کی جانب سے پیکج ملنے کے حوالے سے حکومت نے بڑے دعوے تھے ۔ چینی اخبارات نے بھی سعودی عرب کی طرز پر پاکستان کو پیکج دینے کے لئے توقعات ظاہر کی تھی ۔ تاہم پاکستان میں معاشی بحران سے قطع نظر دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کی نوعیت تاریخی ہے۔ چین نے پاکستان کو عا لمی تنہائی سے بچانے کے لئے بھی کئی بار اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر بھارت و امریکا کی جانب سے پاکستان پر دبائو بڑھانے کی کئی سازشوں کو چین نے سلامتی کونسل میں ویٹو کیا۔پاکستان کے ساتھ چین کی دوستی و ساتھ دینے کی طویل روایات ہیں۔ چین نے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستانی موقف کی تائید کی ہے۔ حریت پسندوں کی جانب سے بھارت کی جارحیت اور منفی پروپیگنڈے کو رد کرنے کے لئے چین کا کردار بڑا اہم رہا ہے۔ خطے میں قیام امن کے لئے چین کا کردار ہمیشہ ناقابل فراموش رہا ہے۔ بیجنگ میں” دی بیلٹ اینڈ روڈ” صنعت کاروں کا اجلاس 25 تاریخ کو منعقد ہوا۔ کانفرنس میں چین اور اسی سے زیادہ ممالک اور علاقوں سے آنے والے 850 سے زائد نمائندوں نے شرکت کی۔اجلاس میں شرکا کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ درمیانے اور چھوٹے صنعتی و کاروباری اداروں کو ”دی بیلٹ اینڈ روڈ” انیشی ایٹو میں شامل ہونا چاہئے تاکہ تمام ممالک کے صنعتی اور تجارتی حلقوں کو ”دی بیلٹ اینڈ روڈ” میں موقع مل سکے۔بیلٹ اینڈ روڑ فورم میں وزیر اعظم کا خطاب بڑی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے کہ وزیراعظم غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں آزادانہ تجارت کے لئے کس قدر متاثر کرپائے ہیں۔
علاوہ ازیں چین اور پاکستان کے درمیا ن آزاد تجارتی معاہدہ دوئم اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ موجودہ حکومت سی پیک کے حوالے سے کئی معاملات پر نیا معاہدہ منصوبے میں پاکستان کی معیشت میں سی پیک منصوبے کو آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی عدم استحکام کے خاتمے کے لئے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد ساز ی کی فضا مزید مضبوط ہونے کی توقعات ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بھی ہمیشہ چین کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات کو اہمیت دیتی رہی ہیں۔ اس لئے پاک۔ چین تعلقات پر اپوزیشن جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ سی پیک منصوبے کو لے کر مملکت کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں ۔ پڑوسی ممالک کی جانب سے سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے کراچی میں چینی قونصل خانے اور کوسٹل ہائی وے پر دہشت ردی کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ سی پیک منصوبہ پاکستان مخالف قوتوں کی آنکھوں میں مسلسل کھٹک رہا ہے اور ملک دشمن عناصر ایسا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے جس میں ان کے مذموم مقاصد عیاں ہوتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان دیرینہ تعلقات متاثر ہوں۔
موجودہ حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سیاسی تنازعات کا فائدہ اٹھانے کی مذموم سازشیں کی جاتی رہتی ہیں۔پاکستان اس وقت بدترین معاشی بحران سے گذر رہا ہے ۔ پاکستان کو ان بدترین معاشی حالات سے نکلنے کے لئے سی پیک کی کامیابی ناگزیر ہے۔ اسی طرح پاکستان میں سیاسی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کا امکان کم نظر آرہا ہے۔سیاسی استحکام ہی سرمایہ کاروںکو رغبت دیتا ہے۔ ان حالات میں کہ پاکستان میں نظام کی تبدیلی کے حوالے سے قیاس آرائیاں اور وزیر اعظم کی معاشی ٹیم میں تبدیلی کے بعد اٹھنے والے کئی سوالوں کو پاکستان دوست ممالک کے ساتھ تعلقات پر حاوی ہونے سے گریز و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سیاسی محاذ آرائی اپنی جگہ ، لیکن اپوزیشن کے ساتھ اگر پارلیمنٹ یا جلسے جلوسوں میں جارحانہ طرز عمل میں کمی اور مفاہمت کی جانب رجحان پیدا نہیں ہوا تو پاکستان کے معاشی حالات میں مزید ابتری کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔