کسی قریبی ہستی کے انتقال کا صدمہ (Bereavement)

تعارف :
کسی قریبی شخص کے انتقال کے صدمے سے دو چار ہونا ایک ایسا تکلیف دہ تجربہ ہے جس سے جلد یا بدیر ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے ۔ اس کتابچے میں آپ کو اس بارے میں معلومات ملیں گی کہ جب کسی انسان کی کسی قریبی ہستی کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے، اگر لوگ اس صدمے سے نکل نہ پائیں تو کیا ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کی کس طرح مدد کی جا سکتی ہے۔

Bereavement

Bereavement

کسی قریبی ہستی کو کھو دینے کے صدمے سے گزرنا:
کسی بھی چیز کے کھو جانے لیکن خاص طور پر کسی قریبی انسان کی موت کے بعد انسان غم کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ یہ تمام مراحل اپنا وقت لیتے ہیں لہذا ان کو جلدی سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ ہم عموماً زیادہ دکھی تب ہوتے ہیں جب کسی ایسے شخص کو کھو دیں جسے ہم کچھ عرصے سے جانتے ہوں۔ لیکن اور حالات میں بھی مثلاً حمل میں بچے کے ضا ئع ہونے کے بعد یا مردہ بچے کی پیدائش پر بھی اس کے والدین اسی طرح کے صدمے سے گزرتے ہیں ۔

کسی قریبی شخص کے انتقال کے فوراً بعد زیادہ تر لوگ پہلے کچھ گھنٹوں اور دنوں تک شدید بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں ،انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ ایسا ہو چکا ہے۔ بعض دفعہ ایسا کسی طویل اور شدید بیماری کے بعد ہوتا ہے جب کہ پتہ ہوتا ہے کہ ان کا رشتہ دار چند ہی گھنٹوں کا مہمان ہے لیکن اس کے باوجود انتقال کے بعد انہیں کچھ دیر تک اس پر یقین نہیں آتا۔ اس بے یقینی کا کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کو انتقال کے بعد کے کچھ مراحل مثلاً رشتہ داروں کو اطلاع دینا اور تدفین وغیرہ سے گزرنے میں کچھ آسانی ہو جاتی ہے لیکن اگر یہ حالت زیادہ عرصے تک رہے تو مشکل ہو سکتی ہے۔
بہت دفعہ مرنے والے کی نعش کو دیکھنے سے انسان کو اس بات کا یقین آنا شروع ہوتا ہے کہ ایسا واقعی میں ہو چکا ہے۔ اسی طرح تہجیزو تکفین کی رسومات سے گزرنے سے انسان کو اس تکلیف دہ حقیقت پہ یقین آنا شروع ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے اپنی قریبی عزیز کی نعش کو دیکھنا یا اس کے جنازے میں شریک ہونا بڑے تکلیف دہ مراحل ہوتے ہیں جس کی شدت کو سہنا آسان نہیں ہوتا لیکن یہ اپنی محبوب ہستیوں کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کا طریقہ ہوتا ہے۔

جلد ہی یہ بے یقینی جھنجھلاہٹ اور بے بسی میں بدل جاتی ہے جس میں انسان اس بچھڑے ہوئے شخص کو ڈھونڈنے اور اس سے دوبارہ ملنے کے لیے تڑپنے لگتا ہے حالانکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ ناممکن ہے۔ اس حالت میں انسان بے سکون رہتا ہے، روز مرہ کی باتوں پہ توجہ نہیں دے پاتا اور اس کی نیند بھی متاثر ہوتی ہے ۔ بعض لوگوں کو پریشان کن خواب بھی آتے ہیں۔ ان مراحل میں کچھ لوگ ایسا بھی محسوس کرتے ہیں جیسے انہیں مرنے والا شخص ہر جگہ نظر آتا ہو، خصوصاً ان جگہوں (پارک، سڑک، گھر) پر جہاں انہوں نے اسکے ساتھ زیادہ وقت گزارا ہو۔ بہت سے لوگ ایسے میں بہت زیادہ غصہ بھی محسوس کرتے ہیں، ان ڈاکٹروں یا نرسوں پر جو ان کے جانے والے کو بچا نہیں سکے، ان رشتہ داروں اور دوستوں پر جنھوں نے ان کے خیال میں اتنا نہیں کیا جتنا کرنا چاہیے تھا اور یہاں تک کہ مرنے والے شخص پر بھی کہ وہ انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔

بہت سے لوگ اپنے آپ کو مجر م سمجھنے لگتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ وہ مزید کیا کہہ سکتے تھے اور کر سکتے تھے۔ اکثر لوگ بعد میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ شاید اگر وہ کچھ اور کرسکتے تو ان کا عزیز بچ جاتا۔ موت کسی کے اختیار میں نہیں اور بعض دفعہ پیچھے رہ جانے والوں کو بار بار یہ بات یاد دلانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ اگر کسی کا انتقال کسی بہت تکلیف دہ اور طویل مرض کے بعد ہوا ہو تو بعض دفعہ قریبی عزیز انتقال کے بعد ایک اطمینان کی سی کیفیت محسوس کرتے ہیں کہ مریض کی جان اس تکلیف سے چھٹ گئ، جس کے لیے پھر وہ شرمندہ ہوتے ہیں۔ یہ احساس طبعی ہے، بہت سے لوگوں کو ہوتا ہے اور اس کے لیے ندامت محسوس کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔

جھنجھلاہٹ، بے چینی اور غصے کی یہ کیفیت انتقال کےتقریباً دو ہفتے بعد سب سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اس کے بعد اداسی، خاموشی اور لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کی کیفیت حاوی ہو جاتی ہے۔ جذبات میں اتنی تبدیلی بعض اوقات دوستوں اور رشتہ داروں کو عجیب سی محسوس ہوتی ہے مگر یہ سب ایک قدرتی عمل ہے۔

انتقال کے تقریباً چار سے چھ ہفتوں کے بعد اداسی اور ڈپریشن کی کیفیت سب سے زیادہ نمایاں ہوتی ہے، خصوصاً ان باتوں کا ذکر یا جگہوں سے جن کا اس شخص سے گہرا تعلق ہو۔ دوسرے لوگ کسی کے (اس طرح کے) غم کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اس لئے غم کے مارے لوگ دوسروں سے ملنے سے گریز کرنے لگتے ہیں جس کا انہیں آگے چل کے نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے کو شش کرنی چاہیئے کہ جلد سے جلد اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو جائیں تاکہ دوسروں کا سامنا کرنے میں مشکل نہ ہو۔ اس وقت میں عموماً جب لوگ زیادہ وقت اکیلے گزارنے لگتے ہیں تو اور لوگ سمجھتے ہیں کہ متاثر شخص فارغ بیٹھا ہے اور کچھ کام نہیں کر رہا لیکن وہ کھو جانے والے شخص کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں اور ان کی اچھی اور بری دونوں باتیں یاد کر رہے ہوتے ہیں۔ اس سے انہیں موت کی حقیقت کا سامنا کرنے میں مدد ملتی ہے ۔

وقت کے ساتھ ساتھ موت کا غم اور دکھ کم ہوتا جاتا ہے، اداسی کم ہونے لگتی ہے اور انسان دوسری چیزوں کے بارے میں اور آئندہ کے بارے میں سوچنے لگتا ہے ۔ لیکن پھر بھی کسی کے کھو جانے کا احساس مکمل طور پہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ شوہر بیوی میں سے کسی ایک کے انتقال کے بعد دوسرے کو اپنے اکیلے پن کا بہت زیادہ احساس ہونے لگتا ہے۔ یہ احساس مزید شدت اختیار کر لیتا ہے جب وہ دوسرے جوڑوں کو ہنسی خوشی ایک ساتھ دیکھتے ہیں۔ وقت کے ساتھ انہیں یو ں بھی محسوس ہونے لگتا ہے جیسے وہ شخص انکے ساتھ ہی ہے اس لئے کبھی وہ اسے محسوس کرتے ہیں اور کبھی اس سے باتیں بھی کرتے ہیں۔

غم سے گزرنے کے یہ تمام مراحل مختلف لوگوں میں مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ ایک یا دو سال بعد کسی بھی بڑے سے بڑے غم سے سمجھوتا کر لیتے ہیں۔ آخری مرحلہ وہ ہوتا ہے جس میں ان کا دل مان لیتا ہے کہ وہ خاص شخص انہیں چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ اس کے بعد وہ نئے سرے سے زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ ان کی اداسی ختم ہو جاتی ہے ، نیند صحیح ہو جاتی ہے اور طاقت و توانائی بحال ہو جاتی ہے۔

بچوں اور نوجوانوں میں غم کا احساس :
چھوٹے بچوں کو جب تک وہ تین سے چار سال تک کے نہ ہو جائیں موت کی حقیقت کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا لیکن انہیں یہ ضرور اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کا کوئی بہت قریبی عزیز جو پہلے تھا اب نہیں ہے۔ بہت چھوٹے بچے بھی کسی قریبی عزیز کے کھو جانے کو بہت محسوس کرتے ہیں اور شدید پریشان ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کا وقت زیادہ تیزی سے گزرتا ہے اور وہ اوپر بیان کیے گئے تمام مراحل سے زیادہ تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ اسکول جانے والے چھوٹی عمر کے بچے بعض اوقات اپنے آپ کو قصوروار سمجھنے لگتے ہیں لہذا ان سے اس بارے میں بات کرنا اور ان کو اطمینان دلانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ کچھ بچے اس فکر سے کہ بڑے ان کو دکھی دیکھ کر اور پریشان ہونگے اپنے دکھ کا اظہار نہیں کرتے۔ بچوں کو آخری رسومات میں شامل کرنا اور ان سے اس بارے میں گفتگو کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

رشتہ دار اور دوست کیسے مدد کر سکتے ہیں :
جو کسی قریبی عزیز کے انتقال کے صدمے سے گزر رہا ہو اس کے ساتھ وقت گزارنے سے رشتہ دار اور دوست بہت سہارا دے سکتے ہیں۔ اس کو تسلی دینا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ ان کے ساتھ کچھ دیر رہنے سے ہی ان کو بہت تسلی ملتی ہے۔
کبھی کبھی اس غم کے بارے میں کسی دوست یا رشتہ دار سے بات کرنے اور رونے سے بھی دل ہلکا ہوتا ہے۔ اس میں کوشش یہ کرنی چاہیئے کہ اسے اپنی بات کہنے اور رونے دیا جائے تاکہ دل کا غبار نکلے۔ اکثر دوسروں کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ دکھی انسان بار بار ایک ہی بات کیوں دھراتا ہے حالانکہ یہ غم کے کم ہونے اور اس پر قابو پانے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کو سمجھ نہیں آئے کہ کیا بات کرکے کسی کا دکھ بانٹا جائے تو یہی کہنے میں جھجک محسوس مت کریں۔ اس طرح ممکن ہے کہ دوسرا شخص خود ہی بتا ڈالے کہ وہ آپ سے کیا سننا چاہتا ہے۔ اکثر لوگ اس خیال سے مرنے والے کا ذکر کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ دوسرا شخص افسردہ نہ ہو حالانکہ بعض اوقات اس طرح کرنے سے غمزدہ شخص سمجھتا ہے کہ دوسرے لوگ مرنے والے کو بھول گئے ہیں اس لئے اس کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ اس سے اس کے اکیلے پن اور اداسی کے احساسات اور بڑھتے ہیں۔
شادی ، سالگرہ، برسی جیسے مواقعوں پہ عام طور سے کھو جانے والوں کا غم اور بڑھ جاتا ہے۔ ایسے موقعوں پہ قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کےساتھ ہونے سے بہت حوصلہ ملتا ہے۔
روز مرہ کے کاموں مثلاً گھر کی صفائی، کھانا پکانا اور بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کرنے سے دوسروں کا غم اور اکیلے پن کا احساس کافی حد تک بانٹا جا سکتا ہے۔
بنیادی طور پر غم کے ان تمام مراحل سے گزرنا بہت ضروری ہوتا ہے چاہے کتنا ہی وقت لگے۔ بعض لوگ ان سے جلد گزر جاتے ہیں اور بعض زیادہ وقت لیتے ہیں۔ اس لیے لوگوں پہ دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کہ وہ جلدی سے نارمل زندگی میں آ جائیں۔ یہ سب آگے کی بہت سی مشکلات کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے۔

اگر انسان کسی کے انتقال کے صدمے کے مراحل سےمکمل طرح پہ نہ گزر سکے تو :
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے کسی قریبی عزیز کے انتقال کے غم کا اظہار نہ ہونے کے برابر کرتے ہیں۔ نہ وہ روتے ہیں نہ رسومات میں شامل ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کے بچھڑنے کا ذکر کرتے ہیں۔ شاید یہی ان کے صدمات سے گزرنے کا طریقہ ہوتا ہےاور اس طرح کرنے سے ان کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔ لیکن بعض لوگوں کو ان حالات میں غم کا اظہار نہ کرنے سے بعض جسمانی تکلیفیں پیدا ہو جاتی ہیں یا آنے والے سالوں میں انہیں بار بار ڈپریشن ہوتا رہتا ہے۔
بعض لوگوں کو تو روزمرہ کے مصروفیات اور ذمہ داری کے بڑھ جانے کی وجہ سے ان تمام مراحل سے گزرنے اور غم کے احساس ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا۔
بعض لوگ غم کے پہلے مرحلے ” بے یقینی ” میں ہی رک جاتے ہیں اور اس احساس سے باہر ہی نہیں نکل پاتے ۔ سالوں گزرنے کے بعد بھی انہیں اس پر یقین نہیں آتا کہ اس شخص کا انتقال ہو چکا ہے اور وہ بھی واپس نہیں آئے گا ۔ اس کے برعکس بعض دوسرے لوگ اس صدمے کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچ ہی نہیں پاتے یہاں تک کہ مرنے والے کے کمر ے کو ایک طرح سے اپنی یادوں کا مزار بنا لیتے ہیں۔
کبھی کبھی ان کسی قریبی شخص کے مرنے کے بعد جو ڈپریشن ہوتا ہے وہ اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ انسان کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے اور بعض اوقات اس کے ذہن میں خودکشی کے خیالات آنے لگتے ہیں۔

ڈاکٹر کی مدد:
● کبھی کبھی ان حالات میں راتوں کی نیند کافی عرصے کے لئے خراب ہو جاتی ہے جس کے برے اثرات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ لہذا ڈاکٹر سے چند دنوں کے لئے نیند کی دوائی لی جا سکتی ہے۔
● اکثر ڈپریشن زیادہ بڑھ جائے جس میں آپ کی بھوک، نیند اور طاقت و توانائی متاثر رہنے لگے تو ایسی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے اینٹی ڈپریسنٹ دوا لینے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔
● کچھ لوگ کونسلنگ اور سائیکو تھراپی سے فائدہ مند ہوتے ہیں۔
● کسی کی موت کے غم سے گزرنا زندگی کا حصہ ہے۔ یہ ایک عجیب، دردناک اور تکلیف دہ مرحلہ ہے لیکن پھر بھی بہت سے لوگوں کو اس دوران اور بعد میں بھی کسی طبی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ترجمہ: ڈاکٹر روحی افشاں، ڈاکٹر مسعود خان
مدیر: ڈاکٹر سید احمر (رائل کالج آف سائکائٹرسٹس، یو کے )