ایران (جیوڈیسک) ایران کے اعلیٰ ترین رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کرنے کی تجویز کو انھوں نے رد کر دیا تھا جبکہ واشنگٹن کا اصرار ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کسی فوجی تعاون کے لیے تیار نہیں تھا۔
خامنہ ای نے کہا کہ عراق میں امریکی سفیر نے ایرانی سفیر سے داعش جنگجوؤں کے خلاف مشترکہ فوجی کارروائیاں کرنے کے لیے ملاقات کی درخواست کی تھی۔
انھوں نے کہا ایرانی سفیر نے اس تجویز پر تہران سے رجوع کیا اور تہران میں کچھ حکام نے اس تجویز کی پذیرائی کی لیکن انھوں نے اس کی مخالفت کی۔ انھوں نے کہا کہ ’انھیں اس ملک کے ساتھ تعاون کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا جس کے ہاتھ رنگے ہوئے ہوں اور نیت خراب ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ ایران کا فیصلہ ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کے ساتھ تعاون نہ کرے جس اسلامک رپبلک روایتی طور پر ’شیطان بزرگ‘ کہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مذاکرات کی دعوت وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف اور ان کے نائب عباس عراقچی بھی رد کر چکے ہیں۔
خامنہ ای نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس بیان کی بھی تردید کی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ واشنگٹن دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں میں ایران کو شریک کرنے کا مخالف تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای جنھیں مثانے کے آپریشن کے بعد پیر کو ہسپتال سے چھٹی ملی ہے کا کہنا تھا کہ امریکہ دروغ گوئی سے کام لے رہا اور امریکہ نے دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی میں ایران کو شریک نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ ایران نے امریکہ کی تجویز کو رد کر دیا تھا۔
پیرس میں پیر کو بین الاقوامی کانفرنس جس میں دولت اسلامیہ کے خلاف حکمت عمل پر غور کیا گیا ایران کو شریک نہیں کیا گیا۔
خامنہ ای نے کہا کہ امریکی حکام کے دولت اسلامیہ کے خلاف بیانات کھوکھلے اور تضادات کا مجموعہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ عراق میں بھی وہی حاصل کرنا چاہتا ہے جو اسے پاکستان میں حاصل ہے۔ ’ایک ایسا میدان جہاں جب جی چاہے وہ داخل ہو جائے اور جہاں چاہے بمباری کرے۔‘ انھوں نے کہا کہ امریکہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر اس نے عراق میں وہی کچھ کیا جو یہ گزشتہ دس سال سے کرتا رہا ہے تو پھر اسے ایک مرتبہ پھر وہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا سامنا وہ ماضی میں کرتا رہا ہے۔