امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کے ایک سینیر عہدہ دار نے عرب ممالک کو شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے پر خبردار کیا ہے۔
امریکا کے مشرقِ قریب امورکے لیے قائم مقام معاون وزیرخارجہ جوئے ہُڈ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اسد حکومت کے بارے میں واشنگٹن کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جائے گی۔
مشرق اوسط میں امریکا کے روایتی اتحادیوں کے بارے میں سوال پرانھوں نے کہا کہ ’’امریکا ان سے کہہ رہا ہے کہ وہ گذشتہ ایک عشرے کے دوران میں شامی عوام پر حکومت کے سفاکانہ مظالم کو ملحوظ رکھیں اور اس سے تعلقات بحال کرنے سے قبل اس کے مضمرات پر غورکرلیں۔‘‘
ہُڈ کا کہنا تھا کہ اسد حکومت شام کے بہت سے علاقوں تک انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔انھوں نے العربیہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا:’’ میں یقیناً یہ بھی کہوں گا کہ ہمارے پاس سیزرایکٹ کی پابندیاں ہیں۔ شام پر پابندیوں کے نفاذ کے لیے یہ ایک ایسا قانون ہے جسے کانگریس اور(بائیڈن)انتظامیہ کی بھرپورحمایت حاصل ہے۔‘‘
ہوڈ نے خبردار کیا کہ ’’بشارالاسد حکومت کے ساتھ تعلقات استوارکرنے کے معاملے میں دوسری حکومتوں اور کاروباری اداروں کو محتاط طرزعمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسد حکومت کے ساتھ لین دین کی صورت میں انھیں اس قانون کے تحت امریکا کی جانب سے ممکنہ پابندیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔‘‘
بشارالاسد گذشتہ ماہ منعقدہ انتخابات میں چوتھی مدت کے لیے صدرمنتخب ہوئے تھے۔مغرب نے ان انتخابات کو ڈھونگ قراردیا تھا اور ان کے نتائج کو مسترد کردیا تھا۔بشارالاسد سنہ 2000ء سے شام کے مطلق العنان حکمران چلے آرہے ہیں۔
شام میں گذشتہ دس سال سے خانہ جنگی جاری ہے۔ان کی حکومت نے2011 ء کے اوائل میں جمہوریت کے حامی پرامن مظاہرین کے خلاف خونیں کریک ڈاؤن کیا تھا جس کے بعد ملک میں خانہ جنگی چھڑ گئی تھی۔شامی شہریوں کے خلاف اسدی فورسز کی جبرواستبداد کی کارروائیوں کے ردعمل میں عرب لیگ نے شام کی رُکنیت معطل کردی تھی۔
مگر اس کے باوجود بعض عرب ممالک نے شام کے ساتھ گذشتہ برسوں کے دوران میں معمول کے تعلقات استوار کرلیے ہیں۔متحدہ عرب امارات اور بحرین نے 2019 میں دمشق میں اپنے سفارت خانے دوبارہ کھول لیے تھے اور گذشتہ سال عُمان نے اپنے سفیر کو واپس دمشق بھیج دیا تھا۔وہ شام میں خانہ جنگی کے بعد اپنا سفیر واپس بھیجنے والاپہلا عرب ملک تھا۔
شام اب خطے کے دوسرے ممالک پرتعلقات کو معمول پر لانے کے لیے زور دے رہا ہے۔ تاہم اس پرامریکا کی اقتصادی پابندیاں بدستور نافذ ہیں جس کی وجہ سے دوسرے ممالک بشارالاسد کی حکومت سے تعلقات کی بحالی میں ہچکچارہے ہیں۔
شام میں جاری جنگ کے نتیجے میں کم سے کم چارلاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ساٹھ لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرت کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ وہ اپنے ہی ملک میں دربد ہیں یا پڑوسی ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔شام کی معاشی بحالی کے ضمن میں بشارالاسد کے پشتیبان روس اور ایران بھی ان کی مالی اعانت کی پوزیشن میں نہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کی سابق ٹرمپ انتظامیہ نے گذشتہ سال جون میں شام کے خلاف سیزرایکٹ نافذ کیا تھا۔اس کے تحت اسد حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں پر پابندیاں عاید کردی گئی تھیں اور شام کے ساتھ دوسرے ممالک اور اداروں کےکاروباری تعلقات استوار کرنے پر پابندی عاید کردی گئی تھی۔مارچ میں متحدہ عرب امارات کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے کہا تھا کہ امریکی پابندیاں شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں سب سے بڑا چیلنج ہیں۔