پوری دنیا میں پارلیمانی روایت یہی ہے کہ اپوزیشن سوال اُٹھاتی اور احتجاج کرتی ہے۔ اِس کے برعکس حکومت نہ صرف صبروتحمل کا مظاہرہ کرتی ہے بلکہ اپوزیشن کے نخرے بھی اُٹھاتی ہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت شائد ابھی تک کنٹینر سے نیچے نہیں اُتر سکی کیونکہ جو کام اپوزیشن کو کرنا چاہیے وہ حکومت خود انجام دے رہی ہے۔ اُسے ادراک ہی نہیں کہ پارلیمانی روایات میں حکومت اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتی ہے تبھی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ اگر گاڑی کا ایک پہیہ پنکچر ہوتا ہے تو گاڑی رُک جاتی ہے۔ یہی کچھ وطنِ عزیز میں ہو رہاہے۔ کپتان کے سونامی نے سب کچھ تہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ اُن کی کوشش اور خواہش یہی کہ سونامی پوری اپوزیشن کو بہا لے جائے اور ”گلیاں ہو جان سنجیاں وِچ مرزا یار پھرے”۔ اب اُنہیں کون سمجھائے کہ ایسا صرف آمریت میں ہوتاہے، جمہوریت میں نہیں۔
اِسی آمرانہ رویے کی بدولت گزشتہ 3 سالوں میں ملکی ترقی کا پہیہ رُک چکا اور حکمران صدارتی آرڈینینسز کے ذریعے کاروبارِ حکومت سرانجام دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آرڈیننس کے بَل پر ہی حکومت چلانی ہے تو پھر پارلیمنٹ کے ہر اجلاس پر لگ بھگ ایک کروڑ روپیہ روزانہ کا خرچہ کیوں؟۔ کیاعوام کی نسوں سے نچوڑا لہو اتنا ہی ارزاں کہ اُسے ماؤں بہنوں کی گالیاں دینے والے ارکانِ اسمبلی پر صرف کر دیا جائے؟۔ کیا عوام اِن بزعمِ خویش رَہنماؤں پر پیسہ اِس لیے صرف کرتے ہیں کہ یہ پارلیمنٹ کو میدانِ جنگ بنا دیں؟۔ بجٹ کے بعد پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا وہ نہ صرف قابلِ نفرت بلکہ لائقِ تعزیر بھی ہے۔ بجٹ کی کاپیاں ایک دوسرے پر اُچھالی جا رہی تھیں۔ حکومت اور اپوزیشن باہم گُتھم گُتھا اور گالیوں کا ایسا سونامی کے سر شرم سے جھُک جائیں۔
وجہ یہ کہ پارلیمانی روایات کے عین مطابق جونہی قائدِحزبِ اختلاف بجٹ پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے کھڑے ہوئے، حکومتی بنچوں کی طرف سے نعرے بازی شروع ہو گئی ۔ دراصل ارکانِ اسمبلی کو ہدایت دی گئی تھی کہ میاں شہبازشریف کو کسی بھی صورت میںبجٹ پر اپنے خیالات کا اظہار نہ کر نے دیاجائے۔ دوسرے دِن پھر ایسا ہی ہوا اور تیسرے دن سپیکر قومی اسمبلی نے یہ کہتے ہوئے اجلاس ملتوی کر دیا کہ جب تک ارکانِ حکومت اور اپوزیشن باہم مل کر ضابطۂ اخلاق طے نہیں کرتے، اجلاس معطل رہے گا۔ اگر میاں شہباز شریف کو خطاب کرنے دیا جاتا تو یہ جَگ ہنسائی کبھی نہ ہوتی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اپوزیشن دودھ کی دھلی ہوئی ہے لیکن یہاں قصور سارا حکومتی بنچوں کاہے جو یہ کہتے پائے گئے کہ چونکہ اپوزیشن وزیرِاعظم کو تقریر نہیں کرنے دیتی اِس لیے میاں شہبازشریف کو تقریر نہیں کرنے دی جائے گی۔ کیا یہی پارلیمانی روایات ہیں؟۔ کیا اِسی لیے عوام نے اپنے نمائندے منتخب کیے تھے؟۔ کیا اِسی لیے الیکشن پر اربوں روپے صرف کیے جاتے ہیں؟۔ کیا اِسی کو جمہور کی حکومت کہا جاتاہے؟۔ سُلگتا ہوا سوال یہ کہ اگر جمہوریت اِسی کا نام ہے تو پھر آمریت میں کیا خرابی ہے؟۔ تحقیق کہ جمہوری آمر فوجی آمر سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتاہے، یہی پاکستان کی تاریخ ہے،
حقِ حکمرانی حاصل کرنے سے پہلے کپتان کا دعویٰ تھا کہ اُس نے ایسے ”نگینے” اکٹھے کیے ہیں جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ اب یہی نگینے کپتان کے دست وبازو ہیں لیکن ایک ہزار دن گزرنے کے باوجود ترقی کا پہیہ جام البتہ گالی گلوچ کی نئی لغت ضرور تیار ہو چکی۔ جو بوقتِ ضرورت کام آتی رہتی ہے۔ کپتان کے اِن نگینوں میں سے چندنگینے ہم نے منتخب کیے ہیں جن کی ”عظیم الشان” کارکردگی سے قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ پہلا نمبرفردوس عاشق اعوان کا ہے جو پرویزمشرف کی قدم بوسی کے بعد ق لیگ میں شامل ہوئی۔ جب وہاں جی نہ لگا تو یہ کہتے ہوئے پیپلزپارٹی میںآن وارد ہوئی کہ جو آصف زرداری کا ساتھ نہیں دے گا اُس کی دُنیا بھی برباد ہو گی اور آخرت بھی۔ شنید ہے کہ پیپلزپارٹی سے بیزار ہوکر محترمہ نے نوازلیگ کے دَر پر بھی حاضری دی لیکن وہاں دال نہیں گلی۔ خوب تر کی تلاش میں آجکل اُس کے ڈیرے تحریکِ انصاف میں ہیں۔ تحریکِ انصاف میں وہ یوں فِٹ بیٹھی ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ کیونکہ وہ تحریکِ انصاف کی سیاسی روایات پر پورا اُترتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ
آخر گِل اپنی ، صرفِ دَرِ میکدہ ہوئی پہنچی وہیں پہ خاک ، جہاں کا خمیر تھا
کُشتوں کے پُشتے لگانے والی فردوس عاشق کا حال یہ کہ ”اُلجھاؤ ہے زمیں سے، جھگڑا ہے آسماں سے”۔ فردوس عاشق المعروف ”ماسی مصیبتے” سے کوئی تو پوچھے کہ پیپلزپارٹی کے قادر مندوخیل کا گریبان پکڑنا اور اُس کے مُنہ پر تھپڑ مارنا کون سی پارلیمانی روایت کا حصہ ہے؟۔ ایسا جاہل، اُجڈ اور گنوار لوگ کرتے ہیںلیکن فردوس عاشق تو ڈاکٹرہے۔ کیا علم نے اُس کا کچھ نہیں بگاڑا؟۔ ایک آدھ واقعے سے تو صرفِ نظر کیا جا سکتاہے لیکن فردوس عاشق تو گھر سے ایسے نکلتی ہے جیسے ڈبلیو ڈبلیوای کے پہلوان اُکھاڑے میں اُترنے کے لیے نکلتے ہیں۔ وہ پریس کانفرنس کرے یا ٹویٹ لہجہ انتہائی تلخ ہوتاہے۔ قادر مندوخیل کے ساتھ جھگڑے سے قبل اُس نے اسسٹنٹ کمشنر سونیاخاں کی سرِعام بے عزتی کی جو پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی زینت بنی۔ مسلم لیگ نون کی ترجمان عظمیٰ بخاری کے ساتھ بھی ایک پروگرام ختم ہونے کے بعد محترمہ لڑچکی ہے۔ ٹی وی اینکرز کو شٹ اَپ کال دینا بھی اُس کا وتیرہ ہے۔ اُس کے متنازع بیانات پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ قادر مندوخیل کے ساتھ اُس کے جھگڑے کا اصل سبب کرپشن کے الزامات تھے۔ شنید ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے دَور میں فردوس عاشق نے وزارت چھوڑی تو اپنے ساتھ سرکاری کراکری تک لے گئی۔ جب قادرمندوخیل نے اِسی کرپشن کا ذکر کیا تو اُس کی شامت آگئی۔ ایک فردوس عاشق ہی کیا تحریکِ انصاف میں ایسے کئی نگینے ہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والا فیاض چوہان بھی اُن میں سے ایک ہے جس کی بَدزبانی، بَدکلامی اور جھوٹ زباں زدِعام ہے۔ میدانِ سیاست میں نوواردفیصل واوڈا بھی اپوزیشن کے خلاف ہمیشہ آگ اُگلتا رہتاہے۔ وزیرِاعظم کے دِل کے قریب مُرادسعید بھی الزام تراشی میں ساری حدیں پار کر جاتاہے۔ وَن مین پارٹی شیخ رشید کی تو بات ہی کیا ہے۔ آجکل اُسے وزارتِ داخلہ دی گئی ہے۔ کیا ایسا شخص وزارتِ داخلہ کا اہل ہو سکتا ہے جو ماضی میں عمران خاں کو جلاؤ، گھیراؤ، مارو، مرجاؤ اور لاشوں کی سیاست کا مشورہ دیتا رہاہو؟۔جو تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے تحریکیوں کو ہمیشہ مرنے مارنے کے لیے اُکساتا رہاہو، اُس سے بھلا خیر کی توقع کون کر سکتاہے۔ بَدقسمتی یہ کہ ایسے ہی لوگ وزیرِاعظم کو مطلوب ومرغوب ہیں۔
موجودہ دَور میں پارلیمانی سیاست کی جگہ گالی گلوچ نے لے لی ہے۔ ہم پارلیمنٹ ہاؤس کو ”مقدس ایوان” کہتے ہیں لیکن اِس مقدس ایوان کے تقدس کی دھجیاں بکھیرنے والے وہی جنہوں نے ایوان کے تقدس کی قسم کھائی ہے۔ شوکت ترین کی بجٹ تقریر کے بعد تین دنوں تک اِس مقدس ایوان میں ماؤں بہنوں کی گالیاں گونجتی رہیں۔ ایک دوسرے پر بجٹ کی وہ کاپیاں اچھالی جاتی رہیں جن پر اللہ رسولۖ کا نام لکھا تھا۔ ایوان کی کارروائی شروع تو تلاوتِ قُرآنِ پاک اور نعتِ رسولِ مقبولۖ سے ہوئی لیکن اُس کے بعد غلیظ ترین گالیوں کا طوفان اور ہلڑبازی ۔یہ پارلیمانی تاریخ کا حصہ ہے کہ ہمیشہ اپوزیشن ہی احتجاج کرتی ہے۔ ایسا دنیا کے ہر جمہوری ملک میں ہوتاہے لیکن تاریخِ پاکستان کی یہ پہلی پارلیمنٹ ہے جس میں باقاعدہ پلان کے تحت ہلڑبازی کا اہتمام اپوزیشن کی بجائے حکومت کرتی ہے۔ وزیرِاعظم صاحب (جو ریاستِ مدینہ کے داعی بھی ہیں) سے دست بستہ عرض ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت پر لکھے گئے کلمہ طیبہ اور اندر رَبِ لم یزل کے نناوے ناموں کو مٹا دیا جائے کیونکہ کوئی بھی غیرت مند مسلمان کلمہ طیبہ کے عین نیچے نکالی گئی ماؤں بہنوں کی گالیاں برداشت نہیں کر سکتا۔