ٹوٹی سلیٹ ، آدھی پنسل سے وزیر اعلیٰ کی کرسی تک جیتن رام مانجھی، معروف صحافی اشرف استھانوی کی تازہ تصنیف ہے۔مصنف نے انتہائی پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے بہار کے وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کے بچپن سے وزیر اعلیٰ بننے تک کے سفر کو اس خو بصورتی سے بیان کیا ہے کہ کتاب پڑھتے ہوئے کبھی ہماری آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی ہیں، کبھی سماج کے ٹھکرائے ہوئے طبقات کا درد ہمیں اپنا درد محسوس ہوتا ہے اور کبھی وزیر اعلیٰ کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہمیں بھی ناماساعد حالات سے ٹکرانے کا حوصلہ ملتا ہے۔
اس کتاب کے توسط سے نہ صرف یہ کہ ہم جیتن رام مانجھی کے خانگی و سیاسی پس منظر سے واقف ہوتے ہیں بلکہ وہ جس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ہمیں اُس طبقہ کے دکھ درد کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اشرف استھانوی نے اس کتاب کے ذریعہ ایک طرف جہاں اپناصحافتی فرض ادا کیا ہے وہیں دوسری طرف پسماندہ طبقات کے تئیں اپنی گہری ہمدردی اور غمگساری کا بھی ثبوت پیش کیا ہے۔بات چاہے سیاست کی ہو صحافت کی یا ادب کی، پسماندہ طبقات کے مسائل کو زیادہ تر انھیں لوگوں نے اہمیت دی ہے، اور اپنی تحریر و تقریر کا موضوع بنایا ہے جو خود اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذکورہ کتاب اس اعتبار سے بھی منفرد ہے کہ اس کے مصنف کا تعلق پسماندہ طبقہ سے نہیں بلکہ انتہائی اعلیٰ طبقہ سے ہے۔
کتاب کا عنوان پڑھتے ہی قاری میں تجسس کی ایک لہر پیدا ہو جاتی ہے۔ ”ٹوٹی سلیٹ آدھی پنسل۔۔۔۔۔۔”سرورق پر کتاب کا عنوان، عنوان سے مطابقت رکھتی ہوئی ٹوٹی ہوئی سلیٹ اور آدھی پنسل کی تصویر اور ساتھ میں مسکراتی ہوئی جیتن رام مانجھی کی تصویر وہ سب کچھ بیان کر رہی ہے جس کی تفصیل کتاب کے اندرونی صفحات میں موجود ہے۔کتاب کا پہلا مضمون ” حاشیے پر کھڑے انسان کا ترقیاتی سفر” پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جیتن رام مانجھی اور ان کے آباو اجداد نے کیسی جدوجہد بھری زندگی گزاری ہے۔مصنف نے اس مضمون میں مانجھی کا خاندانی پس منظر اور ان کے ابتدائی ایام کی ایسی جیتی جاگتی تصویر پیش کر دی ہے گویا انھوں نے بذات خود ان حالات کا معائینہ اور مشاہدہ کیا ہو۔جیتن رام مانجھی بچپن سے ہی انتہائی ذہین تھے لیکن ”مسہر” طبقہ کا فرد ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کی کوئی سماجی حیثیت نہیں تھی۔
لکھنا پڑھنا تو اس طبقہ کے لیے گناہِ عظیم تھا۔ مانجھی اپنے مالک کے بچّوں کو پڑھتا ہوئے دیکھتے لیکن ان کے لیے پڑھنا لکھنا تو دور اس بارے میں سوچنا بھی ممنوع تھا۔ایک دن ماسٹر صاحب نے بچوں سے کچھ سوالات پوچھے، جس کا جواب بچوں کو یاد نہیں تھا۔ماسٹر صاحب ناراض ہو کر جب بچوں کو سزا دینے پر آمادہ ہو گئے تو جیتن رام مانجھی نے ماسٹر صاحب سے درخواست کی مالک کے بچوں کو سزا نہ دیں ، انھوں نے مالک کے بچوں کو سزا سے بچانے کے لیے خود ہی سارے سوالات کے جواب دے دئیے۔ ماسٹر صاحب اس چھوٹے سے بچے(مانجھی) کی ذہانت سے بہت متاثر ہوئے اور بچے کے والد (راماجیت مانجھی) سے مل کر ان کے بیٹے کی تعریف کی اور کہا کہ ان کا بیٹا تو مالک کے بچوں سے بھی زیادہ ذہین ہے۔
انھوں نے راماجیت مانجھی سے کہا کہ اگر اس بچے کو پڑھایا جائے تو یہ بہت آگے تک جا سکتا ہے۔راماجیت نے مالک سے جب اپنے بیٹے کو پڑھانے کی بات کہی تو وہ بھڑک اُٹھا لیکن راماجیت نے بھی عہد کر لیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح اپنے بیٹے کو پڑھائے گا۔ راماجیت کی ضداوراس کے باغیانہ تیور کے آگے آخر کار مالک کو جھکنا پڑا۔ نفرت اور حقارت کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے ”ٹوٹی سلیٹ اور آدھی پنسل” جیتن کو دی اور کہا ” لے پڑھ”۔ مصنف نے اسی واقعہ کو اپنی کتاب کا عنوان بنایا ہے۔
Book
کتاب کے دوسرے مضامین میں جیتن رام مانجھی کی سماجی، معاشی اور سیاسی جدوجہد کا جائزہ لیا گیا ہے۔مصنف نے وزیر اعلیٰ کی زندگی کو قریب سے جاننے کے لیے ان کے افرادِ خانہ سے بھی رابطہ کیا اور ان کی زندگی سے متعلق تمام اہم حقائق و واقعات کو من و عن پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔کتاب میں شامل تین عدد انٹرویوز سے جیتن رام مانجھی کے حوصلے اور مستقبل کے لیے ان کے عزائم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نیز پسماندہ اور اقلیتی طبقات سے متعلق مسائل میں ان کی دلچسپی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے کتاب کی اشاعت سے قبل کئی بار وزیر اعلیٰ سے ملاقات بھی کی ہے۔ان ملاقاتوں میں انھوں نے مسلمانوں ، اقلیتی اداروں اور اردو سے متعلق مسائل پر بھی گفتگو کی ہے۔
وزیر اعلیٰ کے جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دیگر سیاست دانوں کی طرح صرف وعدہ وعید نہیں کرتے۔ حقیقت سے چشم پوشی ان کی عادت نہیں ہے۔بہار مدرسہ بورڈ میں ہونے والی بدعنوانیوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ”بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی حالت اچھی نہیں ہے۔”وہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ جلد ہی مدرسہ بورڈ کے مسائل حل کر لیے جائیں گے ۔ تادمِ تحریر یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ مدرسہ بورڈ کے چیئر مین کو برخواست کر دیا گیا ہے۔
کتاب کا ایک حصہ تصاویر پر مشتمل ہے۔ اس حصہ میں جیتن رام مانجھی کی وزیر اعلیٰ بننے سے قبل اور بعد کی کچھ تصویریں شامل کی گئی ہیں۔اس حصہ میں اگر وزیر اعلیٰ کے بچپن کی کچھ تصویروں کے علاوہ ان کے آبائی مکان اور اہلِ خانہ کی تصویریں بھی شامل کر لی جاتیں تو کتاب کا حُسن دوبالا ہو جاتا۔ کتاب میں وزیر اعلیٰ کے اہلِ خانہ کی کچھ تصویریں ہی شامل کی گئی ہیں۔کتاب کا ایک بڑا حصہ تصاویر اور تاثرات پر مشتمل ہے ، اس سے کتاب کی ضخامت میں غیر ضروری اضافہ ہو گیا ہے۔مجموعی حیثیت سے اشرف استھانوی کی یہ تصنیف وزیر اعلیٰ بہار جیتن رام مانجھی کو بہترین خراج تحسین ہے۔مصنف کا اسلوب اتنا عام فہم اور سادہ ہے کہ عام قارئین بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
Education
یہ کتاب صرف وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کی زندگی پر ہی محیط نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے سماج کا ایک آئینہ بھی ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہمارے اندر ایک نیا عزم و حوصلہ اور امنگیں پیدا ہوتی ہیں۔ ماساعد حالات سے ٹکرانے کی ہمت اور جذبہ پیدا ہوتا ہے۔میرے خیال میں حکومتی سطح پر اس کتاب کی تشہیر و تقسیم کا انتظام کیا جانا چاہئے۔ خاص طور سے تعلیمی وفلاحی اداروں سے وابستہ اشخاص تک یہ کتاب ضرور پہنچنی چاہیے تاکہ یہ پیغام عام ہو کہ جن چراغوں کو ہم حقیر سمجھ کر بجھا دینے کے درپے ہوتے ہیں ان سب کو اگر ایک ساتھ روشن کر دیا جائے تو ان کی ضوفشاں کرنوں سے سارا عالم جگمگا اٹھے گا جسے حقیر سمجھ کر بجھا دیا تونے وہی چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی