تحریر: شہزاد سلیم عباسی اسلامی نظریانی کونسل دستوری و آئینی حیثیت رکھنے والا ادارہ ہے جسے 73ء کے آئین کی شق 227 میں شامل کیا گیا تاکہ تمام وضع کردہ قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنیں، چنانچہ اس غرض سے دفعات 228 ،229 ،230 میں ” اسلامی نظریانی کونسل ” کے نام پر 20 اراکین پر مشتمل ایک ادارہ تشکیل دیا گیا جسکا مقصد صدر، گورنر ، اسمبلی یا کسی ہائر اتھارٹی کی جانب سے بھیجے جانے والے معاملے کی اسلامی حیثیت جانچ کر 15 دن میں رپورٹ پیش کرنا تھا۔شق 228 کی دفعات میں اس بات کو خصوصی اہمیت دی گئی کہ کونسل میں تمام مکاتب فکر کو مساوی نمائندگی حاصل ہو اور کم از کم چار ارکان ایسے ہونگے جواسلامی تعلیم و تحقیق پر پندرہ سال کا عبور رکھتے ہوں اور انہیں جمہورِ پاکستان کا اعتماد بھی حاصل ہو ۔ کونسل نے اب تک اپنی سفارشات پر مرتب تین قسم کی رپورٹیں پارلیمان کو بھجوائی ہیں ۔(1) سالانہ رپورٹیں ، 1977 سے آج تک قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹوں کی تعداد صرف تیس ہے جبکہ آخری مرتبہ یہ رپورٹ 2012 میں پیش کی گئی ۔(2)قوانین کی اسلامی تشکیل پر رپورٹیں ، جسمیں مسود قانون شفعہ ، قصاص ، دیت، اسلامی نظام حکومت ، اسلامی قانون شہادت،اسلامی قوانین ، ضابطہ فوجداری، دیوانی،اصطلاحات، اسفسارات،بیمہ ، مالیات ، محصولات،انتقال جائیداد، قانون دادرسی، احکام اسلام وغیرہ کی رپورٹیں 1992تک پیش کی گئیں۔(3) موضوعاتی رپورٹیں، جسمیں معیشت ، تعلیم ، معاشرے کی اصلاح،ذرائع ابلاغ اور اصلاح قیدیان اور جیل خانہ جات پر رپورٹیں پیش گئیں جسمیں رپورٹ بابت نظا م بیمہ،اسلامی نظام معیشت، بلا سود بینکاری، نظام زکوٰۃاور اسلامی نظام بیمہ،سفارشات برائے نظا م تعلیم،اسلامی نظام عدل اور خاندانی منصوبہ بندی پر مشتمل ہیں۔ اسلامی نظریانی کونسل کا رپورٹنگ سسٹم انتہائی ناقص ہے جس پر بہرحال چیک اینڈ بیلنس کا نظام ضروری ہے۔
اسوقت اس کونسل کا ایک چیئرمین اور 9 ممبر ہیں۔ چیئرمین صاحب نے درس نظامی کا کورس کیا ہے اسکے ساتھ 2 کتابیں تصنیف کی ہیں ، مختلف ممالک کے دورے کیے اور سیاسی کیریئر تو کافی ضخیم ہے۔ممبران میں قاضی حسین احمد مرحوم کی بیٹی ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی ہیں جو سابقہ رکن قومی اسمبلی اور سابقہ رکن پبلک سیفٹی کمیشن ہونے کیساتھ سیاسی و دینی علوم کا تجربہ رکھتی ہیں اور یوتھ، ہیومن ڈیویلپمنٹ اور این جی او سیکٹر کی مختلف باڈیز میں کام کر رہی ہیں۔کونسل کے دوسرے ممبر جسٹس (ر) محمد رضا خان ہیں جو سیکرٹری و جوائنٹ سیکرٹری وزارت قانون و انصاف اور انسانی حقوق، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ، جج پشاور ہا ئیکورٹ، رکن فیڈرل سروس ٹریبیونل اورڈائریکٹر وفاقی محتسب سیکرٹیریٹ بھی رہے۔تیسرے ممبر عبداللہ چیف سیکرٹری کے پی کے ، وفاقی سیکرٹری مذہبی امور ، ڈائریکٹر جنرل نیپا، کمشنر افغان مہاجرین، ڈائریکٹر حج، صوبائی سیکرٹری فنانس اورانفارمیشن وغیرہ کیساتھ ساتھ پولیٹکل ایجنٹ بھی رہے ۔ چوتھے ممبر جسٹس (ر) سید منظور حسین گیلانی جو آزاد کشمیرکے چیف جسٹس ، ایڈوکیٹ جنرل،چیف الیکشن کمشنر اور وائس چانسلر آزاد کشمیر یونیورسٹی بھی رہے ۔پانچویں ممبر پروفیسر ڈاکٹر نور احمد شاہتازجنکا وفاقی شرعی عدالت (فقہ) میں سات سال کا تجربہ ہے ، دوبینکوں کے ساتھ بطور رکن شریعہ ایڈوائزری بورڈ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور اسکے ساتھ ایک انجمن کے نائب صدر اور مدرسے کے خطیب بھی ہیں ۔ باقی چار ممبر حضرات میں سے دو ممبر دیوبند مسلک سے ہیں، ایک اہل تشیع اور ایک اہل حدیث مسلک سے ہے ۔ سمیعہ راحیل قاضی، دو جسٹس صاحبان کے علاوہ باشمول چیئرمین مولانا شیرانی صاحب کی درکار علمی حالت انتہائی پتلی ہے۔
Law
پنجاب حکومت کے قانون برائے تحفظ حقو ق نسواں کی شدید مخالفت کے بعد اسلامی نظریانی کونسل نے 163 صفحات پر مشتمل خواتین کے حوالے سے ایک مسود ہ تیار کیا ہے جسمیں خواتین کے غیر محرم کے ساتھ میل جول، باہر سے آئے مہمانان کے لیے خواتین کا ویلکم کرنے اور مخلوط تعلیم پر پابندی کی سفارشات بھیجی ہیں اور ایک مزید تہلکہ خیز سفارش کہ حکم عدولی کیصورت میں شوہر تنبیہاََ پر بیوی کو ہلکا پھلکا مارسکے گا ۔ اسے نہ صرف انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسترد کیا اور خواتین دشمن مسودہ قرار دیا ہے بلکہ میڈیا کے ستونوں نے بھی مولانا شیرانی کو آڑے ہاتھوں لیا ۔بلا شبہ جہاد و قتال، حدود و قیود،سیاست، نظام شورائیت،معیشت ،سودی نظام کے مسائل، خواتین کا پردہ، طلاق، خلع،شہادت اور دیت کے قوانین،قتل، چوری ، زنااور ارتداد جیسے جرائم کی سزائیں ، موسیقی، مصوری وغیر ہ اور غرض شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں شرعی حیثیت جاننے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کی رہنمائی کی انتہائی ضرورت پڑتی ہے ۔ سیکولر مغربی عناصر، بعض نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بے خبر میڈیا جو بھی کہے لیکن ہمارے مشاہدے میں آتا ہے کہ ہرمسلمان کو قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کے حل کی ضرورت ہوتی ہے جو ظاہراََ یہ دینی علماء اور عصری تقاضو ں کے مطابق علوم پر کڑی نظر رکھنے والا اسکالر ہی معاملات کے ہمہ پہلو جائزے کے بعد کچھ فیصلہ دے سکتے ہیں جو کہ انتہائی سنجیدہ کام ہے۔مذہبی نظام تعلیم کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے تا کہ ایسے جید علماء اور اسکالر کی ایک کھیب تیار ہو جو تھوڑا بہت اجتہاد، استنباط و استفادہ کا کام جانتے ہوں۔کونسل کی رکنیت کے لیے میرٹ کی بحالی اوراس کی تعداد میں اضافہ کیساتھ ساتھ ہر مسلک کی مساوی نمائندگی ضروری ہے
Parliament
اس کونسل پر عوام الناس کا اعتماد ہی نہیں ہے اسے حکومت کا ادارہ نہیں بلکہ ہمیشہ سے سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا گیا اور ممبران کی سلیکشن کے وقت میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ اس بار کونسل کاوارث مولانا فضل الرحمان پارٹی کو بنا دیا گیا ہے جبکہ بریلوی مسلک کی نمائندگی نہیں ہے اور 10 میں صرف ایک خاتون ہے، یعنی خواتین کیساتھ اس محاز پر بھی زیادتی ہے ۔لہذا ایسے لوگوں کو اس کونسل میں شامل کیا جائے جو صرف مدارس کے رجعت پسند مولوی یاانگریزی نظام کے غلام نہ ہوں ، صرف سیاسی گھرانے کے چشم و چراغ یا ریٹائرڈ افسران نہ ہوں بلکہ ملک کے ٹاپ کے پی ایچ ڈی اسکالر، ٹاپ کے علماء، ٹاپ کے معاشی و معاشرتی تجربہ کار شامل ہوں،
ہمارے ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسکے اہل ہیں لیکن گوہر نایاب کو تلاش کرنا شرط ہے ۔میری ناقص رائے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے تین بنیادی مقاصد ہیں، اسلامی شریعت کے حوالے سے بڑھتے شکو ک و شبہات کو رفع کیا کرے۔ثانیاََ اجتہاد کے ذریعے گنجلک معاملات کو متعین کر کے قوم کو ان کے بارے میں آگاہ کرے ثالثاََپارلیمنٹ کے ممبران کی رہنمائی کے لیے انفرادی و اجتماعی طور پر کوششیں کرے ،۔یہ سب تب ہی ممکن ہو گا جب اسے سیاست سے پاک ادارہ بنایا جائے ، کونسل ہر ماہ اپنی رپورٹ بنا کر پارلیمنٹ میں پیش کرے اور پارلیمنٹ اس بات کی پابند ہو کہ اس کونسل کی بھیجی گئی رپورٹ کو داخل یاخارج از دفتر کرے اور اس کونسل کی نگرانی کے لیے ایک سنجیدہ پارلیمانی کمیٹی کاقیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔