تحریر: فیصل ندیم یہ بیسویں صدی کے اوائل کے ہندوستان کا ایک منظر ہے ایک نعرہ ہندوستان کے درودیوار کو دہلائے جارہا ہے۔ لے کے رہیں گے پاکستان بٹ کر رہے گا ہندوستان مسلمانان ہند کی زبان پرموجود اس نعرہ کے پیچھے برصغیر کی تاریخ کا مکمل نچوڑ موجود ہے۔ وہ تاریخ کہ جس میں کبھی مسلمان اس خطہ کے حاکم تھے۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی اور انگریز ہندو گٹھ جوڑ نے اس ہندوستان میں ان کے لیے ان کی شناخت قائم رکھنا بھی مسئلہ بنادیا تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی بقاء صرف اتحاد و اتفاق میں نظر آتی تھی اور یہ اتحاد و اتفاق انہیں کسی علاقائی یا لسانی شناخت کے بجائے صرف اپنے دین میں دکھائی دیتا تھا ۔ اسی لیے انہوں نے اپنے مجوزہ وطن پاکستان کو اسلام کے نام سے منسلک کردیا اور اب ان کی زبانوں پر ایک ہی نعرہ تھا…
پاکستان کا مطلب کیا؟لا الہ الا اللہ۔ یہ نعرہ ہندووں کے لیے کسی تازیانہ سے کم نہ تھا۔ اکھنڈ بھارت کا خواب ہندو کو خطرے میں دکھائی دے رہا تھا۔ مسلمانوں کو ہندو سے جدا کرتا یہ نعرہ اکھنڈ بھارت کے قیام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بننے جارہا تھا۔ اس نعرے کے ردعمل میں دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے گئے۔ اسلام کے نام پر پاکستان کا مطالبہ وہ جرم تھا کہ جس کی پاداش میں متعصب ہندوؤں نے ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمانوں کے لہو کی ہولی کھیلنا شروع کردی ۔ ہندومسلم آبادیوں پر حملہ آور ہونے لگے ۔ان سفاکانہ حملوں میں مرد، عورتیں و بچے سب ہی ان کا نشانہ تھے۔ صدیوں سے مسلمانوں کی حاکمیت تلے دبے رہنے والے ہندو انگریز کے ساتھ مل کر ہر سطح پر مسلمانوں کا استحصال کرنے میں مصروف تھے۔ مسلمان اپنے ساتھ ہونے والے اس بدترین سلوک کے سبب بڑی بے چینی کے عالم میں تھے اور یہی بے چینی اس نعرے کی تخلیق کا سبب بنی تھی۔
زندگی کے ہر شعبہ میں مذہبی تعصب کے شکار مسلمان اپنے آپ کو سارے ہندوستانی معاشرے سے الگ تھلگ محسوس کررہے تھے۔ تحریک پاکستان میں مسلمانوں کی آبادیوں کی آبادیاں تہہ تیغ کرکے بھی ہندو دہشت گرد مسلمانوں کے جذبہ حریت کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی بیدار مغز اور جرات مند قیادت میں ایک آزاد اسلامی مملکت بہت جلد وجود میں آچکی تھی۔ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے۔ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر ابھرنے والا پاکستان برصغیر ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز تھا۔ قیام پاکستان کے وقت انگریزوں اور ہندوؤں نے پوری کوشش کی تھی کہ نومولود پاکستان کو ایسی کسمپرسی کی حالت میں آزاد کیا جائے کہ حالات کی تنگی کے سبب یہ بہت جلد اپنی آزاد حیثیت کھو کر ہندوستان میں ضم ہونے پر مجبور ہوجائے۔
Gurdaspur
یہی وجہ تھی کہ اثاثوں کی تقسیم ہو یا سرحدوں کا تعین ہر جگہ انگریز ہندو گٹھ جوڑ نے اپنا رنگ دکھا کر پاکستان کو بے دست و پا کرنے کی کوشش کی مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل ضلع گرداس پور صرف اس لیے بھارت میں شامل کردیا گیا کہ ہندوستان کو کشمیر کا راستہ میسر آسکے اور یہی وہ راستہ تھا جس کے ذریعہ بھارت نے جموں کشمیر میں اپنی فوج داخل کرکے جموں کشمیر کی عظیم مسلم اکثریت کی تمام تر امنگوں کو اپنے غاصبانہ فوجی قبضہ تلے کچل دیا ۔ ہندوستان کی جانب سے نت نئے تنازعات کو جنم دے کر پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں بھی قیام پاکستان سے ہی انڈین پالیسی کا حصہ تھی۔ اپنے قیام کے پہلے 25 سالوں میں پاکستان کو تین مرتبہ بھارتی فوجی جارحیت کے نتیجے میں ہولناک جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ پاکستان مخالف بھارتی سازشوں کا شاخسانہ ہی تھا جس کے سبب پاکستان اپنے مشرقی بازو سے محروم ہوگیا۔مکتی باہنی کی صورت میں یہ انڈین ”را” کے ایجنٹس تھے جو دو طرفہ قتل و غارت گری کا بازار گرم کرکے مشرقی پاکستان میں بنگالی اور غیر بنگالی کی تفریق پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ پاکستانی تاریخ کے اس سیاہ ترین باب کا سیاہ ترین حصہ ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی کا وہ بیان تھا جس میں اس نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس عظیم سانحہ کے رونما ہونے پر ایک طرف ہندوستان میں خوشیوں کے شادیانے بجائے جارہے تھے تو دوسری طرف پاکستان کے ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب لٹی پٹی پاکستانی قوم میں شدت کے ساتھ یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ اپنی سرحد پر موجود بھارت جیسے کمینے دشمن سے روایتی طریقے سے نمٹنا ممکن نہیں۔
یہ آغاز تھا مملکت خداداد پاکستان کی ازسرِنو بنیادوں پر تعمیر کا ،گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے کا اعلان دنیا کے لیے کسی اچنبھے کا باعث ہوگا، لیکن حقیقت میں یہ ایک بدترین دشمن سے مقابلے کے لیے پاکستانی غیور عوام کی بھرپور تیاریوں کے عزم کا اظہار تھا ۔اور پھر اس تیاری کا آغاز کردیا گیا۔ ہر وقت دشمنی پر آمادہ ہندوستان کی مسلسل دشمنی نے پاکستانی قوم کے ارادوں کے لیے مہمیز کا کام کیا اور پاکستانی قوم جلد ہی سانحہ مشرقی پاکستان میں لگے شدید جھٹکوں سے سنبھلتی دکھائی دینے لگی ۔ امریکہ جیسے مطلب کے یاروں سے دامن چھڑوا کر دفاعی خود انحصاری کے حصول کی طرف بڑھتے قدموں کا نتیجہ ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی میں شاندار کامیابیوں کی صورت نکلتا دکھائی دینے لگا۔ ایک مضبوط پاکستان کو ابھرتے دیکھ کر خطے میں موجود وہ اقوام جو عرصہ دراز سے بھارتی ظلم و زیادتی کا شکار تھیں۔
Anarchy
اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے میدان عمل میں اترنے لگیں کشمیر، بھارتی پنجاب، میزو رام، ناگا لینڈ، منی پور اور متعدد دیگر نام نہاد بھارتی ریاستوں میں بھارتی جابرانہ قبضے کے خلاف بڑی مضبوط اور توانا آوازیں اٹھنے لگیں ۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب بھارت کو اپنا وجود بکھرتا دکھائی دینے لگا ۔ اس ساری صورتحال میں اپنے کیے گئے جرائم کا ادراک کرنے کی بجائے بھارت اپنی دگرگوں حالت کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دینے لگا ۔ اور ایک بار پھر اس نے اپنے مجرمانہ ماضی کو دہرانے کی تیاری کرنا شروع کردی اور پاکستان میں اسلام اور پاکستان بیزار لوگوں کو تیار کرکے پاکستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش کرنا شروع کردی۔ اس وقت کے پاکستان اور 1971 کے پاکستان میں بڑا فرق تھا اس لیے کثیر سرمایہ کاری اور بڑی تگ و دو کے باوجود بھارت اپنے ارادوں میں کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
ایسے میں بزدل بھارتی سورماؤں نے بہادر پاکستانی قوم کو خوفزدہ کرنے کے لیے کوئی بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا 1998 کے 5 ایٹمی دھماکے پاکستانی قوم کے لیے بڑا سخت بھارتی پیغام تھا۔ اس اقدام کے بعد بھارتی منصوبہ سازوں کا یہ خیال تھا کہ پاکستانی بھارتی ایٹم سے ڈر جائیں گے اور یک دم ہتھیار ڈال کر بھارت کے سامنے جھک جائیں گے ۔ لیکن ایک بار پھر دنیا ان کم عقل منصوبہ سازوں کے منصوبہ جات کو پاکستانی عوام کے جذبوں کے سمندر میں غرق ہوتا دیکھ رہی تھی امریکی صدر کلنٹن کی تمام تر ترغیبات اور دھمکیوں کو چٹکیوں میں اڑا تے ہوئے کیے گئے سات ایٹمی دھماکے ساری دنیا کو حیران کرنے کا باعث تھے۔ ہم نیپال بھوٹان مالدیپ اور بنگلہ دیش نہیں پاکستان ہیں اور ہم ہر بھارتی اینٹ کا جواب خالص پاکستانی پتھر سے دینا جانتے ہیں یہ تھا وہ پاکستانی عزم جس نے دنیا کے طول و عرض میں بستی ساری امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔
اسی بیچ دنیا میں ایک عظیم واقعہ رونما ہوگیا۔ 11 ستمبر 2001 دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ میں مختلف مقامات پر ایک ہی وقت میں ہوائی جہازوں کے ذریعہ ہونے والے خودکش حملوں نے ساری دنیا پر گویا سکوت طاری کردیا۔ اپنی طاقت کے نشے میں بری طرح غرق امریکہ ان حملوں کے بعد کسی بپھرے ہوئے سانڈ کی مانند دکھائی دے رہا تھا انتقام انتقام کی صدائیں امریکہ کے طول و عرض سے بلند ہورہی تھیں اجلاس پر اجلاس منعقد کئے جارہے تھے ان حملوں کے ذمہ دار کون ہوسکتے ہیں اس کا فیصلہ کیا جارہا تھا۔
اور ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر بغیر کوئی مقدمہ چلائے بغیر ثبوت و شواہد پیش کیے مجرم مسلمان تھے۔ دنیا میں ایک پسماندہ ترین ملک میں قائم ایک کمزور حکومت دنیا پر حکومت کرتے ان فراعین وقت کا ہدف تھی افغانستان کے سربراہ مملکت ملا عمر کیلئے مطالبات کی فہرست جاری کی جاچکی تھی اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کئے جانے کے علاوہ تمام تر مطالبات کو من و عن ماننے کے احکامات جاری ہورہے تھے اس ساری مہم کے اہداف میں سے ایک بہت بڑا ہدف پاکستان بھی تھا اپنی اسلامی جہادی شناخت کے ساتھ دن بہ دن مضبوط ہوتا پاکستان کفر کی آنکھ میں کھٹکتا کانٹا ہی تو تھا رعونت اور تکبر سے بھرے امریکی پاکستان کے سر پر کھڑے پاکستان کی سرحد پر موجود پاکستان کی اتحادی طالبان حکومت کے خلاف تعاون کے طلبگار تھے انکار کی صورت میں پتھر کے دور میں بھیج دینے کا عندیہ دیا جارہا تھا پاکستان کیلئے ایک اور بہت بڑا مسئلہ اس کا بد ترین دشمن ہندوستان تھا جو اپنے تمام تر وسائل لئے امریکہ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا اسے یہ باور کروانے کی کوشش کررہا تھا کہ مسئلہ افغانستان میں نہیں پاکستان میں ہے اس لئے حملہ بھی پاکستان پر ہی ہونا چاہئے۔
America
40 سے زیادہ ممالک کا اتحاد اور پھر ہندوستان ۔ پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے مشکل ترین دور سے گذر رہا تھا اور پھر حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے پاکستانی حکام ایک مشکل ترین فیصلہ کا اعلان کررہے تھے افغانستان کے خلاف امریکہ اور اس کے حواریوں کا ساتھ دیا جائے گا۔ یہ پاکستان کی ہمیشہ کی طے شدہ خارجی پالیسی کا ایک بہت بڑا یوٹرن تھا خود امریکی بھی اس حیران کن یوٹرن پر حیران تھے۔ اور پھر 40 سے زائد ملکوں نے پوری طاقت کے ساتھ افغانستان پر حملہ کردیا افغانستان کے چپہ چپہ پر آگ و آہن کی بارش کی جارہی تھی جارح افواج نے افغانستان کو تجربہ گاہ سمجھتے ہوئے ہر طرح کا جدید اسلحہ یہاں استعمال کر دیا۔
افغانستان کا پڑوسی پاکستان فطری طور پر اس بدترین صورتحال کے متاثرین میں سر فہرست تھا ایک طرف امریکی اور ان کے اتحادی پاکستان کے شہروں دیہاتوں میں پاگل کتے کی طرح دوڑے پھر رہے تھے تو دوسری طرف افغانستان میں بے دردی سے قتل ہوتے مسلمانوں کی کٹی پھٹی لاشیں پاکستانی مسلمانوں کے غم و غصہ میں اضافہ کررہی تھیں پاکستانی عوام امریکہ اور اس کے حواریوں کے ساتھ پاکستانی حکومت کو بھی برابر کا مجرم قرار دے رہے تھے ایک لاوا تھا جو پاکستانی عوام کے قلوب و اذہان میں پک رہا تھا ان بدترین حالات میں پاکستان کا ازلی دشمن بھارت افغانستان میں امریکیوں کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلواتے ہوئے اپنی جگہ بنانے میں مصروف تھا پاکستان کی سرحد کے ساتھ افغانستان میں انڈین قونصل خانوں کی صورت میں دہشتگردی کے اڈے قائم کئے جارہے تھے یہ پاکستان کے خلاف ایک نئی جنگ کی تیاری تھی۔
حالات کے جبر کی وجہ سے بظاہر کفر کی صفوں میں کھڑے پاکستان کیلئے یہ بڑا کڑا وقت تھا ایک دفعہ پھر پاکستانی جغرافیہ بہت بڑے خطرے سے دوچار تھا اس خطرے کا مقابلہ میدان میں کھڑے ہوکر ہی کیا جاسکتا تھا اور پاکستانی ادارے پاکستان کی بقا کیلئے اس مشکل ترین صورتحال میں کھڑے ہونے کا فیصلہ کررہے تھے۔ جنگ کے ابتدائی جھٹکوں سے سنبھلنے کے بعد صف بندی کا آغاز کردیا گیا اور بہت جلد دنیا افغانستان کی سرزمین پر ایک اور عظیم جنگ کے مناظر دیکھ رہی تھی جدید ترین اسلحہ اور ان گنت وسائل سے لیس دنیا کی سپر پاور اپنے اتحادیوں سمیت افغان مجاہدین کے ہاتھوں پٹنے کے بعد خاک چاٹنے پر مجبور تھی۔ پاکستان کو انتہاء آسانی کے ساتھ ہتھیار ڈال کر اپنی صفوں میں کھڑا دیکھ کر پھولے نہ سماتے امریکیوں پر بھی حقیقت بہت جلد آشکار ہونے لگی وہ جان چکے تھے کہ پاکستان ان کا حلیف نہیں حریف ہے لیکن جنگ اس حصہ میں داخل ہوچکی تھی کہ امریکی کسی بھی طرح کھل کر دنیا کے سامنے اس حقیقت کا اظہار نہیں کرسکتے تھے افغانستان میں ان کے خلاف جاری مزاحمت کے خلاف اصل کردار پاکستان کا ہے۔
افغانستان میں بری طرح پٹتے امریکیوں کو اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ دکھائی دیا تو انہوں پاکستان کو اس کی حرکتوں کی سزا دینے کا فیصلہ کرلیا ہندوستان اس عمل میں امریکہ کا فطری اتحادی تھا۔ امریکن سی آئی اے اور انڈین را کے گٹھ جوڑ کے اثرات اس وقت دنیا کے سامنے آنا شروع ہوگئے جب پاکستان میں ایسے گروپس وجود میں آنا شروع ہوگئے جو دیگر تمام جہادی گروپس کے مقابلے میں بظاہر زیادہ شدت پسند تھے لیکن ان کا ہدف امریکہ انڈیا یا دیگر کافر ملک نہیں بلکہ مسلمان پاکستان تھا۔
Suicide Attacks
پاکستان پر کفر سے اتحاد کا الزام لگانے والے یہ نام نہاد عسکریت پسند کافروں کی گود میں بیٹھ کر پوری قوت سے پاکستان پر حملہ آور ہوگئے اب خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا ایک لا متناہی سلسلہ پاکستان میں شروع ہوچکا تھا ۔ مساجد، مدارس ،اسکولوں اور بازاروں میں ہونے والے بم دھماکوں کا شکار اکثر پاکستان کے نہتے عوام تھے۔ایسی کیفیت میں سی آئی اے اور را کا اگلا خطرناک وار یہ تھا کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ غیر ملکی میڈیا کے ساتھ ملکی میڈیا میں اپنا زرخرید صحافیوں کے ذریعہ پاکستان کے ناکام ریاست ہونے کا پروپیگنڈہ کرکے اس کے ایٹمی پروگرام پر بھی سوالات اٹھائے جانے لگے۔
یہ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے اعصاب کا کڑا امتحان تھا ایک طرف افغانستان کی جنگ کی صورتحال جہاں ناکامی کی صورت میں پاکستانی سرزمین کے کھلے میدان جنگ میں تبدیل ہونے کا خدشہ اور دوسری طرف پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی دہشتگردی اور اس کے نتیجہ میں مسلسل معصوم جانوں کا زیاں اور پھر درست طور پر بکرے کی ماں سے نمٹنے کا فیصلہ کرکے مجاہدین اسلام نے افغانستان میں امریکہ اور اس کے حواریوں کے خلاف اپنے حملوں کو تیز سے تیز تر کردیا۔ ان حملوں کا نتیجہ بہت جلد امریکی واویلے کی صورت میں آنے لگا،ہر روز امریکہ پہنچتے امریکی فوجیوں کے تابوت امریکی عوام کو امریکی فوج کی فتوحات کی داستانوں سے متضاد کوئی اور ہی کہانی سنا رہے تھے۔
امریکی کبھی بھی اس طرح اپنے بیٹوں کی لاشیں اٹھانے کے عادی نہی تھے یہی وجہ تھی کہ پورے امریکہ میں افغان جنگ کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے امریکی رائے عامہ انتہائی تیزی سے اپنی حکومت کے خلاف ہونے لگی کثیر جنگی اخراجات کے بوجھ تلے دبی امریکی معیشت کی زبوں حالی امریکہ کیلئے مرے پر سو درے کی مصداق تھی۔ امریکی خوشنودی کے حصول کیلئے افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں اترنے والے امریکی اتحادیوں کی حالت اس سے زیادہ پتلی تھی افغان مجاہدین کے ہاتھوں گرنے والی چند لاشوں نے ہی ان کا نشہ ہرن کردیا تھا اور یہ امریکی حواری جتنی تیزی کے ساتھ آئے تھے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ واپسی کے لئے سامان باندھنے لگے۔
اس عظیم الشان فتح کے بعد دنیا میں پاکستان کی حیثیت کا بدل جانا یقینا” ایک فطری امر تھا۔ دنیا ایک سخت جان بہادر اور میدانوں میں کھڑے ہوکر اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے انتہاء بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑ کر فتح حاصل کرتے پاکستان کو اس کا حقیقی مقام و مرتبہ دینے پر مجبور تھی۔ پاکستان کی یہ شاندار کیفیت پاکستان کے ازلی اور کمینے دشمن ہندوستان کے نزدیک قطعی طور پر ناقابل قبول تھی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو ایک بار پھر ٹوٹتا دیکھنے کے خواب دیکھتے ہندوستانی اتنے زیادہ بوکھلا چکے تھے کہ وہ اپنی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کرنے پر مجبور ہوچکے تھے۔
Modi
بھارتی گجرات کے قصائی کے طور پر معروف نریندر مودی کا وزیراعظم کے طور پر انتخاب جس کیلئے مودی کی اہلیت کا معیار صرف اور صرف پاکستان دشمنی تھی۔ مودی نے آتے ہی اپنی کم ظرف فطرت کے مطابق پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ شروع کردیا اپنی انتخابی مہم میں پاکستان کو سبق سکھانے کو دعوے کرنے والے مودی کو اس وقت بڑی ہی خفت اٹھانی پڑی جب پاکستان کی جانب سے اس کی ہر حرکت کا سخت ترین جواب آنے کے بعد اس کو رسوا ہو کر پیچھے ہٹنا پڑا بیرونی خطرات سے بہت حد تک نمٹ لینے کے بعد پاکستان کا اگلا ہدف اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کی صفائی تھا آپریشن ضرب عضب کے نام سے اس صفائی کے آغاز کے ساتھ ہی انڈین بوکھلاہٹ کا اظہار بین الاقوامی سرحد پر چھیڑ چھاڑ کے زریعہ ہونے لگا لیکن یہاں بھی مودی سرکار کو ایک بار پھر منہ کی کھانا پڑی جہاں پاکستان کی بہادر افواج نے اپنی سرحدوں پر انڈینز کو منہ توڑ جواب دیا۔
ساتھ ہی آپریشن ضرب عضب کی رفتار کو تیز کرکے پاکستان کے اندر غیر ملکی گماشتوں کو ٹھکانے لگانے کا کام بھی انتہاء تیز کردیا گیا۔ ایسے میں کھلے میدان میں کھلی شکست سے دوچار بزدل دشمن نے انتہا درجہ کی کمینگی کا اظہار کرتے ہوئے پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے نہتے نونہالوں پر حملہ کردیا چھوٹے چھوٹے ننھے پھول جیسے معصوموں کو چہروں پر گولیاں مار کر شہید کرنے والے سفاک ترین مجرم کسی بھی قسم کی ہمدردی کے مستحق نہیں تھے تین اور چار سال کے بچوں کی خون میں تربتر لاشیں قوم سے بہت سخت انتقام کا تقاضہ کررہی تھیں اور پھر اس انتقام لینے کا پورے ملک میں آغاز کردیا گیا دہشتگردوں اور ان کے ہمدردوں پر پاک سر زمین تنگ ہونے لگی دور حاضر کے ان سفاک ترین فرعونوں کو ان کے خفیہ بلوں سے نکال نکال کر مارا جانے لگا اور برسوں کے گند کی صفائی کا وہ کام جس کیلئے عام حالات میں شاید سالوں درکار تھے۔
آرمی پبلک اسکول پشاور کے نونہالوں کی قربانی کے سبب دنوں میں ہونے لگا برسوں سے لسانیت صوبائیت اور فرقہ واریت میں بٹی قوم ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہوکر پاکستان آرمی کے شیروں کو پاکستان کو غیر ملکی ایجنٹوں سے پاک کرنے کا مینڈیٹ دے رہی تھی۔ مسلمانوں کا اتحاد ہمیشہ اپنے اندر عظیم ترین نتائج سموئے ہوتا ہے ایسا ہی کچھ پاکستانیوں کے ساتھ بھی ہورہا تھا دنوں میں امن و امان اور معیشت کی حالت سنبھلنے لگی پاکستان کی معاشی ترقی کا عظیم منصوبہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری بھی انہی دنوں میں قوم کے سامنے پیش کرکے اس پر فوری کام شروع کردیا گیا پاکستان کی اقتصادی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھنے والی گوادر پورٹ کے فعال ہونے کی خوشخبری بھی انہی دنوں میں قوم نے سنی ہے۔ کل ہماری شکست و ریخت کی باتیں کرنے والے آج ہمیں مستقبل کی سپر پاور کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں یہ سب کچھ بہت کچھ قربان کرنے کے بعد حاصل کیا گیا ہے اور ترقی اور عزتوں کے حصول کے اس عظیم سفر میں زرا برابر بھی کوتاہی ہماری راہ کھوٹی کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
Pakistan
عظمتوں اور رفعتوں کے حصول کے اس سفر میں ہمیں بہت زیادہ چوکنا رہنا پڑے گا ہمارا مکار دشمن ماضی میں ہمیں لسانی صوبائی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں مبتلا کرکے ہماری صفوں میں انتشار پیدا کرتا رہا ہے اپنی منزل کے حصول کیلئے ہمیں ہر طرح کے انتشار سے بچ کر اتفاق و اتحاد کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور اس مقصد کے حصول کا سب سے آسان راستہ پاکستانیوں میں نظریہ پاکستان کا نئے سرے سے احیاء ہے پاکستان کی بقا کیلئے ہمیں ہر طرح کے لسانی گروہی اور فرقہ وارانہ تضادات کو رد کرکے اپنی گلی کوچوں میں ایک بار پھر وہی نعرہ مستانہ لگانا پڑے گا جو کل پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں ہمارے پرکھوں نے لگایا تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، تیرا میرا رشتہ کیا، لا الہ الا اللہ، اسلام زندہ باد پاکستان پائندہ باد۔