تحریر : وقار انساء رب العزت نے دنیا تخلیق کی تو اس مین سارے دلفریب رنگ بھر دئیے کہین بلند و بالا پہاڑتو کہین بہتی ندیاں اور دریا کہیں ریگستان اور کہیں سبزہ زار کہین برف پوش وادیان اس کائنات کا حسن ہين تو کہیں خوبصورت آبشارون کا جلترنگ پھل پھول- انسان اس پروردگار کی تخلیق پر دم بخود رہ چاتا ہے۔
بے شک وہ قادرمطلق بڑی خوبصورتی سے اس کائنات کا انتظام وانصرام چلائے ہوئے ہے کتنا نا شکرا ہے انسان جو ان نعمتون کا شکر ادا کرنے کے بجائے حريص بن کر وہ بھی پالينا چاہتا ہے جو وقتی طور پر اسے حاصل نہين ہوتا حسد خود غرضی کا نتيجہ ہے اور خود غرضی حيوانيت کا دوسرا نام ہے اس لئے حاسد انسانيت سے نکل کرحيوانيت ميں قدم رکھتا ہے۔
اپنی نيکيوں کو ضائع کرديتا ہے روزمرہ کے کاموں مين الجھا ہوا انسان غفلت کی وجہ سے اپنی عبادت سے غافل ہو جاتا ہے ھم صرف اپنی ضرورتون کے وقت ہی کيوں اس کو پکارتے ہيں؟ جب مشکل وقت آپڑتا ہے تواسے اللہ ياد آجاتا ہے اس وقت اس کی تڑپ ديدنی ہوتی ہے وہ تڑپ تڑپ کر اسے پکارتا ہے آہ وفرياد کرتاہے کيونکہ اس وقت وہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ اس ذات کے علاوہ اور کوئی نہين جس سے وہ اپنا دکھ درد بيان کر سکےاورجب دکھ پريشانی پروردگار نے ختم کر دی تو سب بھول بھال کر وہی دنيا کے دھندے اور وہی دنيا داری- وہ پھر سے غافل ہو جاتا ہے۔
Universe
ہم سب غرض کے بندے ہيں اور وہ ھماری کوہتاہيون کو نظر انداز کرنے والی مہربان ذات – ھماری نيتيں خالص نہين ہوتيں اس لئے سکون واطمينان کی جگہ بے سکونی اور پريشانی لے ليتی ہے اسی لئے ھمين خالص رشتے نہين ملتے کھوٹے رشتے اور کھوٹے دنياوی تعلق جو اپنی ضرورت کے مدار کے گرد گھومتے ہين ملتے ہين نتيجہ انسان اللہ سے شکوہ کر بيٹھتا ہے اپنا محاسبہ کئے بغير يہ سوچے بغير کہ اس نے اپنے پيارے رشتوں کو کس طرح اپنی غرض کی بھينٹ چڑھايا-اور شکوہ اللہ کی ذات سے !!! دنيا کی خوبصورتی اور رشتوں کے لطيف احساسات کومفاد کی بھٹی مین جھونک ديا۔
ضمير کو ان معاشرتی برائيوں کا اتنا عادی بنا ليا کہ اس پر تو جيسے غنودگی کی کيفيت طاری رہتی ہے کسی احساس کے جھنجھوڑنے پر بھی ہوش مين نہيں آتا- اچھی يا بری بات ظلم اور زيادتی- کسی بات سے اسے فرق نہين پڑتا دنياوی چيزوں کے چھن جانے پرتو روتا اور پیٹتاہے اپنا کوئی رشتہ اس فانی دنيا سے جاتا ہوا ديکھتا ہے تو آہ و فغاں کرتاہے احساس خاموش ہو جائے تو ضمير کی موت ہو جاتی ہے اس موت پر وہ کيوں نہين روتا؟؟ اگر روتا ہے تو دنيا کی بے حسی کا رونا – کاش ھم غرص کے بندے نہ بنیں! ہر اچھے وقت ميں بھی اس مالک کو ياد رکھیں۔
Muhammad PBUH
ايک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کا گزر ايسی قوم کے پاس سے ہوا جن پر عذاب ہو رہا تھا اپ نے ارشاد فرمايا –کيا يہ اللہ سے عافيت کی دعا نہين مانگا کرتے تھے حقیقت يہ ہےکہ انسانیت کا کمال روحانيت کا ارتقا عبادت سے ہی ہو سکتا ہے چونکہ روح انسانی کی غذا عبادت ہے جس طرح جسم مادی اشياء سے پرورش پاتا ہے اسی طرح روح کو عبادت سے تربیت اور تقویت حاصل ہوتی ہے۔