تحریر : عقیل خان
مبارک ہو۔۔ تقریبا سال بھر پہلے جو پانامہ کا سلسلہ شروع ہوا وہ بظاہر اپنے اختتام کے قریب ہے۔ کچھ عرصہ عدالتوں میں کیس چلنے کے بعد فیصلہ ہوا کہ جے آئی ٹی بنا دی جائے تاکہ مزید شفاف کام ہوسکے کیونکہ تین جج جے آئی ٹی بنانے کے حق میں متفق تھے جب کہ دو جج نوازشریف فیملی کے خلاف فیصلہ دے چکے تھے۔جے آئی ٹی بنتے ہی کچھ دن بعد اس پر حکومتی نمائندوں کی انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ کسی نے پنجابی فلمی ہیرو کی طرح بڑھکیں لگانا شروع کردی تو کسی نے جے آئی ٹی میں شامل افراد کو متنازع قرار دینا شروع کردیا۔بحرحال جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق کافی شور شرابا شرو ع ہو گیا۔
جے آئی ٹی نے دن رات ایک کرکے تقریباً دوماہ سے زائد لگاکر اپنی تحقیقات مکمل کیں اور آخر کار 10جولائی کو سپریم کورٹ میں 10 جلدوں پر مشتمل رپورٹ پیش کردی۔ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے رپورٹ جمع کرائی، سپریم کورٹ نے رپورٹ کی کاپیاں فریقین کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا توجے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے استدعا کی کہ جلد نمبر 10 پبلک نہ کی جائے کیونکہ اس میں غیرملکی قانونی معاونت سے متعلق مواد شامل ہے، یہ جلد مزید تحقیقات کے لیے استعمال ہوگی۔ جس پر سپریم کورٹ نے دسویں جلد پبلک نہ کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پبلک ہونے کے بعد سے پاکستان کی سیاست میں کافی گہماگہمی شروع ہوگئی ہے۔ حکومت اور اس کے حلیف ہرمحاذ پر مقابلے کے لیے تیار ہیںجبکہ اپوزیشن جماعتیں نواز شریف پر مستعفی ہونے کا پریشر بڑھا رہی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن اس دن سے ایک دوسرے پر باونسر ماررہے ہیں جبکہ ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔
جہاں حکومت اور اپوزیشن نورا کشُتی کررہے ہیں ادھر عوام میں بھی کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ نورا کشتی کے لفظ پر یقینالوگوں کے جذبات مجروح ہو رہے ہوں گے لیکن ہم نے اپنی زندگی میں کسی بھی سیاستدان کو اپنا یا کسی دوسرے کا احتساب کرتے نہیں دیکھا۔ ہاں لفظی جنگ کی شدت سب نے محسوس کی۔صرف کرسی کی جنگ دیکھی ہے کرسی چھنتے ہی سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔زیادہ دور کی بات نہیں ۔ ا مشرف اور زرداری دور کو ہی دیکھ لیں ان کے دور حکومت میں کون کون سے ڈرامے نہیں لگے ۔ کیا کیا جھوٹے وعدے نہیں کیے گئے مگر بتائیں اقتدارمیں آنے کے بعد کیا کیا؟ زرداری جو اپنے دور حکومت میں اپنی بیوی کے قاتل تک تلاش نہیں کراسکا وہ عوام کے لیے کیا کرتا؟ موجودہ حکمرانوں نے مشرف کو ملک سے باہر بھیج دیا ۔بس زبانی کلامی جنگ ہوتی ہے جو ہم میڈیا کے ذریعے یا جلسے جلوس میں سنتے ہیں مگر پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ”کتُی چوراں نال رلی اے”کے مترادف سب ایک ہیں۔ حقیقت میں صرف انہیں اقتدار چاہیے ہوتا ہے عوام سے کوئی سروکار نہیں۔
نوازشریف فیملی کا جے آئی ٹی میں کرپشن ثابت ہونے کے بعدہرطرف چور چور کی آواز بلند ہورہی ہیں۔ وہ لوگ بھی نوازشریف کو چور کہہ رہے ہیں جن کے اپنے ہاتھ ہی نہیں بلکہ سر سے پیر تک کرپشن میںرنگے ہوئے ہیں۔ایک گوالا جوکبھی خالص دودھ نہیں دیتا وہ بھی چور چور کا راگ الاپ رہا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے کبھی دفتر کا منہ نہیں کیا ور گھربیٹھے تنخواہ وصول کررہے ہیں وہ بھی چور کا شور مچا رہاہے۔ واپڈا والے آن ڈیوٹی کبھی کسی کی ٹوٹی ہوئی تار بغیر پیسوں کے نہیں لگاتے وہ بھی واویلا کررہے ہیں۔ کون ہے ایسا پارساجس نے اپنی حلال کی کمائی سے کوٹھی اور گاڑی بنائی ہو۔ہم اس کو تو چور کہہ رہے ہیں کبھی تنہائی میں اپنا محاسبہ کیا ہے۔کبھی سوچا ہم اپنے کاموں میں، لین دین میں کتنا ہیر پھیر کرتے ہیں۔ نہیں کیوں کہ اپنی چور ی، اپنا کردار ہمیں نظر نہیں آتا دوسروں پر انگلیاں اٹھانا آسان ہے۔
پانامہ پرگیلپ پاکستان نے ملک بھر میں سروے کیا۔جس میں عوام سے سوال کیا گیا کے کیا جے آئی ٹی وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی فیملی کو مجرم قرار دے گی ؟جواب میں 51 فیصد نے کہا، جی ہاں اور 48 فیصد نے کہا نہیںاور 1 فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔اسی سروے میں عوام سے ایک اور سوال کیا گیا کے حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی کے جن ممبران پر عدم اعتماد کیا گیا کیا انہیں اس کمیٹی سے استعفا دے دینا چاہیے ؟جواب میں 57 فیصد نے استعفا دینے کا مشورہ دیاجبکہ 43 فیصد نے کہا کے استعفا نہیں دینا چاہیے۔
سروے اور احتساب ہونا تو ٹھیک ہے مگرایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ پانامہ میں نوازشریف فیملی کے ساتھ ساتھ پی پی اور پی ٹی آئی کے خاص لوگ بھی شامل ہیں تو پھر صرف نواز شریف فیملی کا احتساب کیوں؟ عمران خان جو خود آف شور کمپنی کا اعتراف کرچکے ہیں ان کو کیوں اس احتساب میں شامل نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ پہلے ہی کہا جاچکا ہے کہ نوازشریف فیملی کا احتساب اس لیے کہ وہ اقتدار میں ہیں اگر وہ بھی اقتدار سے باہر ہوتے تو پھر کچھ نہیں ہونا تھا۔پی ٹی آئی اور پی پی والوں کو کئی بار سنا ہے کہ وہ فرما رہے ہیں کہ میاں صاحب استعفیٰ دے دو مگر ان میں اتنی جرات نہیں کہ پہلے اپنے گھر کو صاف کرلیں۔ اسی پانامہ میں جہانگیر تیرین ،عبدالعلیم خان ، رحمان ملک جیسے اور بہت سے لوگ شامل ہیںتوپھر ان کی پارٹیوں کو چاہیے کہ پہلے ان کا انٹرنل احتساب کر کے عدلیہ کو خود احتساب کے لیے پیش کرتے تاکہ ایک اچھی روایت قائم ہوتی مگر بات وہ ہی ہے جو پہلے ہو چکی۔
نواز شریف کے حامی نے کچھ ایسی باتیں لکھ کر واٹس ایپ کیں جن سے میرا خیال ہے کہ آپ بھی کافی حد تک متفق ہونگے۔ اس نے لکھا :
پا کستانیو! نکلوگھروں سے اور عمران خان، طاہرالقادری ،شیخ رشید اور بلاول زرداری کے ساتھ مل کر نواز شریف کا احتساب کرو کیونکہ اس نے بہت بڑی حماقت کی کہ ڈالر 113 سے 104 تک لایا،پیٹرول کی قیمت 117 سے71 تک پر لے آیا،دہشتگردی %85 تک کم ہو گئی ،کراچی میں آئے روز درجنوں لاشیں، چند منٹوں میں کراچی بند ہونے کا سلسہ مفقود، موٹروے جس پر طرح طرح کے بیانات دیے گئے اور پھر خود ہی اس کی پیروی کی ، طلبا کو لیپ ٹاپ ، بہاولپور میں ایشیا کا سب سے بڑا کڈز ہسپتال ،اورینج ٹرین ، پاک چین راہداری جیسا عظیم منصوبہ شروع کرنے جیسے عظیم جرائم اور اس ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے پر ،اتنے بڑے بڑے گناہ کرنے پر نواز شریف کا احتساب کرنا ضروری ہے ۔
حکومت میں کوئی بھی ہو اس کو عوام کے مسائل حل کرنا ہوتے ہیں مگر یہ الگ بات ہے کہ کوئی کام کرتا ہے اور کوئی نہیں۔ زرداری اور ق لیگ کے دور میں کوئی میگا پراجیکٹ اگر کہیں نظر آتے ہیں تو دکھائیں کہ اتنے کام ہوئے ہوں مگر پیسہ ان کے دور میں خوب قرض کی صور ت میں آیا ۔ کوئی ایسا دور نہیں گزرا جس نے بیرونی قرضہ نہ لیا ہو مگر حقیقت میں کام نوازشریف کے دور میں ہوئے ہیں۔
سر تسلیم خم کہ یہ کالم پڑھنے کے بعد حکومت مخالف لوگ فوراً لفافہ صحافی کا لفظ میرے لیے استعمال کریں گے لیکن ہر بندہ لفافے کا پچاری نہیںہوتا ۔ کسی کی سوچ پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ حقیقت میں ہونا تویوں چاہیے کہ پاکستان کی جتنی بھی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعتیں ہیں سب کا ایے ٹو زی احتساب ہواورجماعتوں کو حاصل ہونے والے فنڈز کا بھی، اس کے بعد جوبھی کرپٹ ہو اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔میری تو یہی دعا ہے پاکستان میں احتساب ضرور ہو مگر میرے ملک کی آن با ن اسی طرح قائم رہے۔اس ملک کی طرف کوئی بھی میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف ضرور ہوں مگر اپنے ملک کی خاطر ایک ہوں۔
تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com