تحریر : پروفیسر رفعت مظہر افغان مسلے پر امرتسر میں منعقد ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے بارے میں خیال یہی تھا کہ پاکستان اِس کا بائیکاٹ کرے گا لیکن حکومت نے اِس میں شرکت کو مناسب سمجھتے ہوئے مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک وفد امرتسر بھیجا جس کے ساتھ بھارتیوں نے معاندانہ سلوک کرکے اپنی بَد فطرتی کا ثبوت دیا۔ سب سے پہلے توپاکستانی سفارتی وفد کو 40 منٹ تک امیگریشن کے لیے انتظار کروایا گیا اورپھر پاکستانی سفارت خانے کی مداخلت پر امیگریشن ہوئی ۔ جس ہوٹل میں سرتاج عزیز صاحب کو ٹھہرایا گیا تھا ، اُس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی ۔ کانفرنس کے خاتمے پر اُنہیں ہوٹل سے نکلنے کی اجازت نہ دی گئی اور کہا گیا کہ ہوٹل سے سیدھے ایئرپورٹ جائیں ۔ سرتاج عزیز امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقام ” گولڈن ٹیمپل” کا دَورہ کرنا چاہتے تھے لیکن اُنہیں روک دیا گیا حالانکہ افغانستان کے صدر اشرف غنی اور کئی غیر ملکی سفیروں کو گولڈن ٹیمپل کا وِزٹ کروایا گیا۔ پاکستانی صحافیوں کو بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبد الباسط سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جس پر عبدالباسط صاحب نے بھارتی ایس پی کو جھاڑ بھی پلائی ۔ یہ تو بھارتیوں کا پاکستانی وفد کے ساتھ سلوک تھا لیکن کانفرنس کے دَوران تو بدتمیزی اور بے حیائی کی انتہا ہی کر دی گئی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ محفل افغان مسٔلے کا حل تلاش کرنے کے لیے نہیں ، پاکستان کو رُسوا کرنے کے لیے سجائی گئی ہو۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میںبھارت کے ”بغل بچے” افغانستان کے صدر اشرف غنی نے نرینددر مودی کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی انتہا کر دی ۔ وہ یہ بھی بھلا بیٹھا کہ ہم گزشتہ تیس سالوں سے تیس لاکھ سے زائد افغانیوں کو پناہ دیئے بیٹھے ہیں۔ اِن زبردستی کے مہمانوں پر ہم 200 ارب ڈالر سے زائد صرف کر چکے ہیں جو پاکستان کے کل بیرونی قرضے کا تین گنا بنتا ہے ۔ اُسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان کے ٹھکانے ہیں جنہیں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” تربیت بھی دیتی ہے ، اسلحہ بھی اور پیسے بھی۔ افغان صدر نریندرمودی کی شہ پر ”بونگیاں” مارتا رہا وہ ایک بات کہتا اور پھر دوسرے ہی لمحے اپنی ہی کہی گئی بات کی تردید کر جاتا۔ اُس نے کہا ”پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو وہ بھاگ کر افغانستان آ جاتے ہیں”۔ پھر اُس نے کہا ”پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا”۔ایک طرف اُس نے پاکستان کے افغانستان کے لیے اعلان کردہ پچاس کروڑ ڈالر ز پر طعنہ زنی کرتے ہوئے کہا کہ یہ رقم دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے رکھ لیں جبکہ ساتھ ہی یہ بھی کہا ”ہمیں ایک دوسرے کے خلاف طعنہ زنی اور الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے”۔ اب ایسے مخبوط الحواس شخص کی باتوں پر کون یقین کرے ۔ اُس کے لیے تو بَس اتنا ہی کہنا کافی ہے ”شرم تم کو مگر نہیں آتی”۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم آخر کب تک اِن تیس لاکھ زبردستی کے افغان مہمانوں کو پناہ دیئے رکھیں گے جن کی دوسری نسل بھی اب پَل بڑھ کر جوان ہو چکی ہے اور لَگ بھگ دَس لاکھ افغانی پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرکے پاکستان کے مختلف حکومتی اور نِجی اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ ایک طرف تو ہم اپنی غربت کا ڈھنڈورا پیٹ کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ زبردستی کے مہمان ، جن کے بارے میں بِلا خوفِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کے بہت سے خفیہ ٹھکانے انہی افغانیوں کی بستیوں میں ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی اولین فرصت میں اِن لوگوں کو اِن کے ملک واپس بھیجیں تاکہ ہماری معیشت سے یہ زبردستی کا بوجھ ہٹ جائے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر سارے جہاں کا درد ہمارے ہی جگر میں کیوں ہے؟۔
Narendra Modi
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے بھی تمام اخلاقی اور سفارتی آداب کو پسِ پشت ڈال کرخباثتوں بھرا خطاب کیا۔ حسبِ سابق اُس کی تان پاکستان کے خلاف الزام تراشیوں پر ٹوٹتی رہی ۔ اُس نے کہا کہ صرف دہشت گردوں کا ہی نہیں ، اُن کو پناہ دینے والوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے ۔ اُس کا اشارہ واضح طور پر پاکستان کی طرف تھا اور الزام وہی گھِسا پِٹا کہ پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ساٹھ ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ دے چکے جن میں پاک فوج کے چھ ہزار سے زائد جرّی جوان بھی تھے ۔ بلا شبہ دہشت گردی کے پیچھے چھپے ہاتھ کو کاٹنے سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے ۔ یہ ہاتھ اتنا خفیہ بھی نہیں ۔ صاف عیاں ہے کہ نریندر مودی سے بڑا دہشت گرد کوئی ہو ہی نہیں سکتا ، جس کے مُنہ کو مسلمانوں کے خون کی چاٹ لگ چکی ہے۔
آر ایس ایس کے اِس نمائندے نے گجرات میں مسلمانوں کا جو قتلِ عام کیا ، وہ تاریخ کا حصّہ ہے اور اب بھی پاکستان ، خصوصاََ بلوچستان میں دہشت گردی کے پیچھے اُسی کا ہاتھ کار فرما ہے ۔ اکھنڈ بھارت کا احمقانہ خواب دیکھنے والا یہ شخص مسلمانوں کا بَدترین دشمن ہے اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کو عین عبادت سمجھتا ہے ۔ ایک دفعہ گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر کسی صحافی نے مودی سے سوال کیا تھا کہ کیا اُسے اِس قتلِ عام پر دُکھ نہیں ہوا تو اُس نے جواب دیا تھا ” اگر میری گاڑی کے نیچے کُتّے کا پِلّا آ جائے تو دُکھ تو ہو گا”۔ ایسی گھٹیا سوچ رکھنے والے شخص کے مُنہ سے دہشت گردی کے خاتمے کی باتیں سُن کر عجیب محسوس ہوتا ہے۔
روسی مندوب نے نریندر مودی اور اشرف غنی کے الزامات کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سرتاج عزیز نے بہترین خطاب کیا ۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ روس اِن الزامات سے لا تعلقی کا اظہار کرتا ہے ۔ ہم یہاں دوستی کے لیے آئے ہیں ، الزام تراشی کے لیے نہیں۔ ایک طرف تو روس کا یہ رویہ ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میںحقانی نیٹ ورک کی خفیہ پناہ گاہیں اب بھی موجود ہیں ۔ پاکستان ، روس اور ایران کا طالبان پر اثرورسوخ ہے جو افغانستان کے سیاسی استحکام کے لیے رکاٹ اور خطرہ ہے ۔ یوں تو امریکہ ہمارا دوست اور اسٹریٹیجک پارٹنر ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اُس نے کبھی بھی پاکستان کا ساتھ نہیں دیا ، اِس لیے یہی دُعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ ایسے دوست سے بچائے۔