تحریر : ممتاز امیر رانجھا سرکاری دفتر کا وزٹ جاری تھا، دفتر کے بڑے ہال کو چھوٹے چھوٹے فریم سے منقسم کر کے گریڈ وائز علیحدہ علیحدہ کیبن بنائے گئے تھے۔ ہائی آفیشل نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ یعنی یہ چھوٹے چھوٹے کیبن اور ان کا مقصد کیا ہے؟ وہاں موجود سٹاف میں سے ایک دور اندیش شخص نے برجستہ جواب دیا،”سر یہ کچھ بھی نہیں یہ غلط فہمیاں ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کو غلط سمجھ کے اس کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔
ہم سارے انسان برابر ہیںلیکن پھر بھی اپنے ارد گرد جائزہ لے لیں کچھ لوگ ذات پات کی وجہ سے منقسم ہیں، کچھ لوگ مذہب یا تفرقے کی وجہ سے منقسم ہیں،کچھ لوگ افسر یا سٹاف کی وجہ سے منقسم ہیں،کچھ لوگ امیر یا غریب کے چکر میں منقسم ہیں اور کچھ لوگ بد صورت یا خوبصورت ہونے کی وجہ سے معاشرتی عدم مساوات کا شکار ہیں۔یہ تقسیم نسلوں تک چلتی ہے۔پاکستان بنانے کا مقصد تمام مسلمانوں کو ایک سلطنت میں آزادانہ رہنے اور مذہبی روایات کو چلانے کاماحول دینا تھا۔ہم سارے اس کے بر عکس چل رہے ہیں۔ترقی انسان کی مثبت سوچ سے ممکن ہے۔ترقی کے لئے بہت ضروری ہے کہ ہمارا معاشرہ کرپشن فری ہو،ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں رشوت اور سفارش کا بوریا بستر سمیٹ دیا جائے۔
ایک سیاستدان دوسرے پر کیچڑ اچھالتا ہے ،دوسرا سیاستدان پہلے کو گالی دیتا ہے۔جس کی باری ہے وہ پہلے کو برا کہتا ہے اور جس کی باری ہوتی ہے اس کے ممبر دل بھر کے لوٹتے ہیں۔چلیں اگر ہم مان بھی لیں کہ کوئی اچھا نہیں ہے تو پھر اچھے کہاں سے آئیں گے۔ملک میں اچھے لوگ تبھی آئیں گے جب ہم سارے بحثیت قوم ایماندار ہو جائیں گے۔جب سے ملک بنا ہے ہم لوگوں نے کیا ترقی کی ہے۔ہم پچھلے ساٹھ سالوں میں لائین میں لگ کر بل جمع کراتے ہیں۔ہمارے پنشنرز پڑھاپے میں گرمی سردی کی لہروں میں بینکوں اور پوسٹ آفسز کے سامنے دھکے کھاتے کھاتے مر جاتے ہیں۔ہمارے نوجوان ڈگریاں حاصل کر کے بے روز گار رہتے ہیں یا روز گار حاصل کر کے بھی انصاف نہیں پاتے۔
Bribery
ملکوں میں تعمیرو ترقی کے لئے پوری قومیں یکجا ہو جایا کرتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہتی ہے یہاں ترقی کے راستے روکنے کے لئے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں کہ کہیں اس کام یا ترقی کا سارا کریڈٹ خدانخواستہ حکومتِ وقت کو نہ مل جائے اور کہیں انہیں اگلے پانچ سالوں میں دوبارہ شکست نہ ہو جائے۔ہم میاں نواز شریف کے سپوکس مین بھی نہیں،ٹھیک ہے اگر ان پر یا ان کی فیملی پر کوئی الزام ہے یا ہوا تو وہ خود اس کو کلیئر کرتے رہیں گے۔انٹرنیشنل تجارتی شاہراہ بننے سے پاکستان کی آئندہ نسلوں اور پاکستان کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہونے کے امکانات ہیں۔سمندری بندرگار اور زمینی راستے سے چائنا کا پاکستان کے ذریعے رابطہ بڑھنے سے پاکستان کو امپورٹ اور ایکسپورٹ کے ذریعے ان گنت آمدنی کی توقع ہے۔اس شاہراہ کے بننے سے ہی کئی بے روزگاروں کو بہترین روزگار ملنے کی توقع ہے۔ملک میں ترقی کا کوئی بھی کام ہو اس کا کریڈٹ صرف حکومت وقت کو نہیں جاتا بلکہ عوام اور اپوزیشن کو بھی جاتا ہے کہ ان کے تعاون اور مدد سے ایسا کرنا ممکن ہوا۔
پوری دنیا کی تجارت کا محور شاہراہ تجارت ہے جس کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر میں اہم ترین ملک ہے۔پاناما لیکس کے چکر میں ایک ایسی سازش گھڑی جا رہی ہے جس سے حکومت اور جمہوریت کو عدم تحفظ کا شکار کر کے اس شاہراہ کے بننے میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔جہاں تک آف شور کمپنیوں کا چکر ہے اس بات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ن لیگ،پی پی پی ،تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سمیت کئی بڑے لوگ دنیا بھر اور پاکستان میں کئی جائز اور ناجائز کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس حکومت سے ذرا پہلے جا کر جائزہ لیا جائے تو اس سے پہلے پی پی پی، ق لیگ ، اور مشرف کے ادوار میں جی بھر کے کرپشن کی گئی۔جس کو جتنا ملا اس نے جی بھر کے گھپلا کیا،جس کا جہاں بس چلا اس نے پاکستان لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔یقینا آج احقر یہ دعوی کر رہا ہے اور اس با ت کی گواہ پاکستانی تاریخ ہے اگر کسی کے دل میں سچ سننے کی جراء ت ہے تو اس میں اتنی ہمت ہونی چاہیئے کہ پاکستانی حکومتی ادوار میں ہمیشہ ن لیگ نے ہی پاکستانی ترقی میں معاونت کی۔مشرف،ق لیگ ،پی پی پی کے ادوار میں مہنگائی ،لوٹ کھسوٹ اور دہشت گردی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔میاں صاحب کے پچھلے دور میں بہت زیادہ ترقیاتی کام ہوئے،اس دفعہ بہت کام جاری ہو چکے ہیں،بہت کام مکمل ہو چکے ہیں اور بقیہ دو سالوں میں لوڈ شیڈنگ پر قابو سمیت کافی کی توقع ہے لیکن افسوسناک بات تو یہ ہے کہ جب بھی یہ حکومت کوئی اہم قومی منصوبہ شروع کرنے لگتی ہے اپوزیشن جماعتوں کے پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں۔
Imran Khan
ہم تو چاہتے ہیں کہ عمران خان کی باری آئے اور عوام تحریک انصاف کو بھی روایتی حکومت کرتا دیکھ لے تو کہ ان کے چاہنے والوں کو بھی چار چاند نظر آئیں۔ان کو بھی پتہ چلے کہ حکومت چلانااتنا آسان کام نہیں ہے۔در حقیت ہم سارے اپنے اپنے حلقوں میں تقسیم ہیں۔ان حلقوں کے نگہبان بھی کرپشن اور بے ایمانی کے گند میں اٹے ہوئے ہیں۔انہیں بھی غلط اور صحیح کا اندازہ نہیں۔نچلے لیول پر بے ایمان،کرپٹ اور نااہل من موجیوں سے لوٹ کھسوٹ میں اپنے اپنے کیبن میں مصروف عمل ہیں۔ہر کوئی اپنے آپکو درست اور اہل سمجھتا ہے اور دوسر ے کو غلط اور نا اہل سمجھتا ہے۔اسی چکر میں ملک کا سوا ستیاناس ہو رہا ہے۔ملک،ادارے اور عوام لُٹ رہے ہیں۔دنیا پاکستان کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔بلوچستان میںمشتاق رئیسانی جیسے وزیرخزانہ کے گھر سے پیسے برآمد ہونا دولت کی ہوس کی بدترین مثال ہے۔پنجاب میں محکمہ اوقاف کے وزیرفاروق پر قبضہ چھڑاتے ہوئے قاتلانہ حملہ ہونا قبضہ گروپ کے طاقتور ہونے کی گندی مثال ہے،ہاں اگر وزیر صاحب جھوٹے ہیں تو بھی احتساب ضروی ہے۔کاسٹک اور کیمیکل سے دودھ بنانے والوں کا سامنے آنا جعلسازی کی بری مثال ہے۔یہ معاشرتی برائیاں عوام اور سیاستدانوں کے کرپٹ ہونے کا اہم ثبوت ہیں۔
اس وقت اپوزیشن جماعتوں کو وزیر اعظم اور ان کا خاندان کرپٹ اور نا اہل دکھائی دیتا ہے ،انہیں (اپوزیشن کو)اپنی سابقہ اور موجودہ کرپشن بالکل دکھائی نہیں دے رہی۔سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری سمیت نئے سیاستدانوں کو اپنی سیاسی باری کا انتظار ہے اور سیاسی کرسی کے چکر میں انٹرنیشنل شاہراہ تجارت اور ملکی ترقی پر گرہن لگنے کا چانس بن رہا ہے۔چانس لینے کے چکر میں ملک اور عوام کا سودا کیا جا رہا ہے۔اگر سارے اپنے اپنے سیاسی کیبن سے باہر نکل کر محض حکومت کو دوسال گزارنے دے تو شاید ملکی حالات بہتر ہو جائیںلیکن ہرگز ایسا دکھائی نہیں دیتا سارے اس معاملے کو ایک آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔باریاں لینے والے دو سال تو کیا دو دن گزارنے کا ارداہ نہیں رکھتے۔
حکومت وقت کا احتساب دورانِ حکومت یا دوسال بعد حکومت ختم ہونے کے بعد بھی ہو سکتا ہے لیکن ایسی مثبت سوچ کے لئے ہمیں مثبت نسل پیدا کر کے اس کی مثبت پرورش کرنا ہو گی۔جب تک عوام ٹھیک نہیں تب تک حکومت بھی ٹھیک نہیں ہو گی۔پاکستان1947میں بنا تھا لیکن افسوس ہماری سوچ ذرا بھی تو چائنا اور ترکی کی طرح ترقی یافتہ نہیں۔ہماری عوام اور ہماری حکومتوں کو امریکہ ،ہندوستان اور بنگلہ دیش کی زیادتیوں پر بھر پور احتجاج کرنے کا طریقہ تک نہیں آیا،ہم ٹھیک حکومت کرنے اور ٹھیک حکومت بنانے کا مرحلہ نجانے کب سیکھیں گے۔ہم اپنی غلط فہمیوں کو نجانے کب ختم کریں گے ،ہم سارے اس کرپٹ،جعلساز،اجارہ دار اور بدمعاش ماحول کے خود ذمہ دار ہیں اور ہم سب کو اس آگ میںجل کر مرنا ہو گا،ہمارا مقدر تباہی ہے ،ہمیں تباہی سے بچنے کا سلیقہ تک نہیں آیا،کاش ہم سارے ایماندار اورذمہ دار ہو جائیں۔ہم سارے بے ایمان اور چور ہیں۔بے شک عوام ہویا لیڈر سارے گناہگار ہیں۔