6 ستمبر آزادی کے محافظوں کا دن

Freedom

Freedom

تحریر: محمد جواد خان
ماہ اگست و ستمبر عہد و پیماں کا موسم ۔۔۔ہر طرف ہریالی و سبزہ زار کا موسم۔۔۔۔ یہ وہ موسم ہے جو اس لمحہ کی یاد کرواتا ہے جب وقت کے سورج نے اپنی سنہری کرنوں سے اس نیلے آسمان کے نیچے ہماری مقدس دھرتی پر لفظ “آزادی ” لکھا تھا۔اور جسے اس دھرتی کے باسیوں نے اپنے سینوں میں پروتے ہوئے اپنی سانسوں میں ایسا سمویاکہ ہر طرف ان کے خون کی ہولی کھیلی گئی، ان کے بے سرو پاہ لاشوں کو بے گور و کفن سڑکوں پر گھسیٹا گیا، کہیں پر عزت وعصمت کو پامال کیا گیا تو کہیں سر عام انسانیت کو روندا گیا، کہیں خون سے لت لاشے اور کہیں بے گور و کفن جنازے، کہیں یتیم و بے سہارا مخلوق ، اور کہیں شفاف فلک کے سائے میں پلتے بچے، کہیں عورتوں کی لٹی عصمتیں اور کہیں بچوں کا بھوک و پیاس سے تڑپایا گیا، کہیں چوروں کی عیاشیاں اور کہیں مظلوموں کی سسکیاں ، کہیں اپنوں کی تلاش میں تڑپتے انسان اور کہیں اپنوں کی زندگی کے متالاشی لوگ ، کہیں زندگی کی امید اور کہیں زندگی اپنی امیدوں کو توڑتے ہوئے، کہیں جوانوں کا جوش اور کہیں ان کے لاشے، عرضیکہ ہر طرف موت ہی موت تھی ۔۔۔ مگر سلام پیش کیا جائے ان ہستیوں کوجو خود قربانیوں کی مثالیں تو بن گئے مگر ہم کو آزادی کا لفظ لگا کر “پاکستان ” جیسا عظیم ملک ِ پاک دے گئے۔
قید میں آیا تو حاصل مجھ کو آزادی ہوئی
دل کے لُٹ جانے سے میرے گھر کی آبادی ہوئی

قوموں اور ملکوں کی تاریخ میںکچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو عام ایام کے برعکس بڑی قربانی مانگتے ہیں،یہی دن فرزندان ِ وطن سے حفاظت وطن کے لئے تن من دھن کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں ، مائوں سے ان کے جگر گوشے او ر بوڑھے والدین سے ان کی زندگی کا آخری سہارا قربان کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تب جا کر قربانی کی عظیم داستانیں رقم ہوتی ہیں ، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن رزمگاہ حق و باطل کا رخ کرتے ہیں، آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح د ے کر دیوانہ وار لڑتے ہیں، کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سر خرو ہوتے ہیں، تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخیص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

1965 War

1965 War

14 اگست 1947 کا دن جب ایک پودا لگایا گیا تھا کہ جس کی سرسبز فضائوں سے ہم دلوں کو تسکین دیں گئے، جس کے ٹھنڈی چھائوں میں ہم سکون کی نیند سویا کریں گئے اچانک اسی درخت کی شاخیں کاٹنے کے لیے 6 ستمبر 1965 کو ہمارا ازلی و ابدی دشمن اپنے پورے زورِ بازو سے ہم پر حملہ آور اس نیت سے ہوتا ہے کہ نہ رہے گا درخت اورنہ ملے گی ان کو آزادی۔۔۔۔۔

نہ دیکھ میر ی عرض پاک کو نظرِ بد سے
ہم وہ طوفان ہیں جو پہاڑوں کو لرزا دیں

66ستمبر 1965 کا دن ہماری قوم اور عسکری تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہوا، ہماری بہادر افواج ِ پاکستان کی پشت پر پوری قوم یکجان ہو کر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ایسے بن گئی کہ دنیا نے ہماری قوم کے ناقابل تسخیر جذبے اور مسلح افواج کی شاندار کامیابیوں اور معرکوں کو تسیلم کرتے ہوئے ہمارے شیر دل جوانوں اور شاہین صفت ہوا بازوں کے جذبہ جہاد اور ایمانی قوت کو بھر پو ر خراج تحسین پیش کیا۔

ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین ِ گلستان میں
ہمیں بھی یاد رکھنا چمن میں جب بہار آئے

6ستمبر 1965 کو وہ ہمارا دشمن جس نے دوستی کا نقاب اوڑھ کر اپنی جارحیت سے پاکستان کو تر نوالہ سمجھ کر اپنی فوج کو حکم دیا کہ اپنے ساتھ ایک نئی وردی بھی رکھ لیں تاکہ مال روڈ پر جب سلامی لی جائے تو اس وقت نئی وردی میں ملبو س ہوں، لیکن وہ اس بات سے انجان تھے کہ حق و صداقت کی اس جنگ کی فتح کا وعدہ اللہ کا تھا ، رب تعالیٰ نے مومنوں کی اس فوج کو بے پناہ طاقت اس قدر عطا کی کہ انھوں نے اپنے سے کئی گناہ زیادہ لشکر پر غلبہ پاتے ہوئے ان کے مکروہ خواب شرمندہ تعبیر کر دیئے۔ صف شکنوں کی کاری ضرب اور دہشت سے دشمنوں کے پائوں میدان جنگ میں ایسے اکھڑے کہ وہ تتر بتر ہوکر رہ گئے اور اپنے ہی ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔

شہیدان ِ وطن کے حوصلے تھے دید کے قابل
وہاں پر شکر کرتے تھے، جہاں پر صبر مشکل تھا

1965 War Pak Army

1965 War Pak Army

6 ستمبر 1965 کی جنگ میں جدھر اقوام ِ پاکستان اور افواج ِ پاکستا ن کے اندر جذبہ و ولولہ دیکھنے کو ملتا ہے ادھر ہی قدم قدم پر معجزات کے تذکرے ملتے ہیں۔ حضور نبی کریم ۖ عجلت گھوڑے پر سوار ہو کر پاکستان کے جہاد میں شامل ہونے کے لیے تشریف لا رہے تھے، جنگ بد ر کہ شہدا محاذوں پر پہنچ چکے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلوار ذوالفقار کو فضائوں میں بلند دیکھا گیا، ایک محاذ کے بھارتی قیدی کا بیان تھا کہ سفید پیراہن والی پاکستانی فوج بھارتیوں کو تہس نہس کر رہی تھی، ان کی تلوارون سے شعلے نکل رہے تھے، دوسرے محاذ کے قیدی کا بیان تھا کہ سرخ ٹوپیوں اور چھوٹے قد والے پاکستانی فوجیوںنے بھارتی سینا کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ بھارتی توپچی نے کہا گولے پھینکنا بے کار تھا۔ ایک سفید ریش بوڑھا میرے گولے کیچ کر کے پر ے پھینک دیتا تھا۔ بھارتی ہوا بازوں کا بیان تھا کہ جب وہ گولے پھینکتے تھے تو سفیدریش بوڑھا انہیں ہاتھوں میں پکڑ کر زمین پر یوں رکھ دیتے کہ وہ پھٹتے نہ تھے۔

صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لاالہ میں ہے

6ستمبر 1965کا دن ہماری دھرتی ماں کے لیے ایسا دن تھا کہ جس دن نے تمام قوم کے اندر جذبہ ایمانی کی روح پھونک دی اور حوصلے ایسے بلند کر دیئے کہ ہر نفس شہادت کا متلاشی بن کر ارض ِ پاک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے زرہ پوش ہو گیا۔۔۔ اجناس و زر کے ڈھیر لگا دیئے اور اپنے آرمی چیف کی ایک آواز پر یک جان ہو کر لبیک بول کھڑے ہوئے ، جوان ہی نہیں گھر میں بیٹھی عورتوں نے اپنے زیورات تک پاک فوج کی مدد کے لیے اتار کر یہ رقم تاریخ کے اورق میں ثبت کر دی کہ جب ضرورت پڑی تو ہم اپنی جانیں بھی دیں گئے مگر اے ارض ِ پاک تیری طرف اُٹھنے والی ناپاک نظر کا منہ توڑ جواب دیں گئے۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

6ستمبر 1965 کی جنگ میں ہم مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتے، پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بگاڑ اور علاقے میں کشیدگی کا واحد سبب کشمیر ہے جس کی بدولت دونوں ممالک میں کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں ، اور جب تک مسئلہ کشمیر کو عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا تب تک دونوں ممالک میں یہ کشیدگی بدستور برقرار رہے گی۔ تنازعہ کشمیر کا آبرومند انہ حل پاکستان کی سلامتی اور استحکام و بقاء کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے ، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کشیدگی کو حل کرنے کے لیے کب ۔۔۔؟؟؟کون۔۔۔؟؟؟ کیسے۔۔۔؟؟؟ کہاں۔۔۔؟؟؟ کوئی سنجیدہ ہو گا۔۔۔؟؟؟

اے دنیا کے منصفو۔۔!!! سلامتی کے ضامنو
کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے لہو کا شور سنو

14 اگست 1947 اور 6ستمبر 1965 ملکی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور دونوں ایسے واقعات ہیں کہ جن کو کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا جن واقعات نے پوری مملکت ِ خداداد پاکستان کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کر دیا، جس عوام میں نہ کوئی تفرقہ دیکھنے کو ملا اور نہ ہی کوئی رنجش ، جن کی نہ تو کوئی سیا سی پارٹی تھی اور نہ ہی کوئی مذہبی ۔۔۔ صرف ایک پارٹی دیکھی گئی جس کاکام دفاع پاکستا ن تھا ، جس کانام پاکستانی عوام تھا، جس کا مذہب و مسلک اسلام تھا، جس کی لگن و جستجو سلامتی تھی، جس کی امنگ آزادی کی پر سکون لہر تھی، جس کا جذبہ افواجِ پاکستان تھی۔

نقش توحید کا ہر دل میں بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

Pak Nation

Pak Nation

یہ وہ قوم تھی کہ باوجود بے سر و سامانی کے ان کے حوصلے بلند تھے، ٹوٹی ہو ئی جانیں تھی مگر صفیں مضبوط تھی، ہتھیاروں کی کمی تھی مگر جذبہ ایمانی تھا، اپنے لیڈر کی ایک آواز پر لبیک کر نے والی اس عوام نے دورِ پرفتن میں یہ لوگوں پر عیاں کر دیا کہ ملک کی بقاء کے لیے جانوں کے نظرانے دینے پڑے تو دریغ نہیں کریں گئے، ملک کی افواج کو خون کی ضرورت درپیش ہوئی تو پیچھے نہیں دیکھیں گئے۔ ان کے جذبے جوان ہو چکے تھے، ضمیر جاگ چکا تھا، اقوام عالم مسلمانوں کے اس ایثار و جذبے کو دیکھ کر حیران تھے، ہر طرف ، ہر کوئی ، ہر نفس پاکستان کی بقاء میں مگن تھا، جس سے جو ہو پا رہا تھا وہ کر رہا تھا، الغرض پورے ملک میں ایک ہی لہر چھا گئی تھی،سب دل ایک ساتھ دھڑک رہے تھے، ایک مٹھی میں بند یہ بنی نوع انسانی کا قافلہ اپنے راستے میں آنے والے ہر طوفان سے نمٹنے کے لیے چاک و چوبند تیار کھڑا تھا۔

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

آج ہم کو نئے نئے فتنوں میں ڈال کر ہمیں بیٹریاں لگائی جا رہی ہیں ، ہماری ترقی کی راہوں میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں، ہماری سوچوں کو مقدوم کیا جار ہا ہے،ہمارے ہاتھ، پائوں مسائل کی نظر کر کے باندھے جارہے ہیںکیونکہ جان چکی ہے یہ دنیا کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو کچھ بھی کر گزرنے کی ہمت رکھتا ہے، جس کی عوام صلاحیتوں سے اس قدر بھر پو ر ہے کہ وہ کسی بھی مسلئے کا حل نکال سکتے ہیں، وہ کسی بھی قسم کے خطرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں ، اسی لیے ہمیں کبھی دہشت گردی میں الجھایا جاتا ہے تو کبھی دین کے تفرقوں میں ، کبھی آبی جارحیت کی جاتی ہے تو کبھی نہتی عوام پر گولہ باری، کبھی ہم پر میزائل پھینکے جاتے ہیںتو کبھی ہمارے قیدیوں پر بھوکے کتے چھوڑے جاتے ہیں ، کبھی ہم کو فلموں ڈراموں میں مشغلو ل رکھا جاتا ہے تو کبھی گستاخانہ خاکوں کی تشہیر سے ہمارے دینی جذبات کو مجروع کیا جاتا ہے۔ الغرض ہم کو فتنو ں میں ڈالے رکھنے کا عزم ہمارے دشمنا ن کا ہے ایسے ہی لوگوں کے عزائم کی طرف شاعر ِ مشرق علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ہماری توجہ دلانے کی کوشش کی تھی کہ:
وہ فاقہ ِ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدی ۖ اس کے بدن سے نکال دو

میں پورے دعویٰ کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ جس دن اس پاکستانی عوام کو ایک مخلص لیڈر مل جائے گا اس دن پاکستان ترقی کی راہوں پر کامزن ہو گا، دنیا اس کی محتاج ہو گی، آج ہم لوگوں کے دروازوں پر جا کر قرض اور نوکری کی درخواست کرتے ہیں ، ایک دن ایسا آئے گا اقوام ِعالم ہمارے دروازوں پر دستک دے رہے ہونگے ، ہم وہ ہونگے کہ جن کی درسگائیں آباد ہوں گئے، جن کے حوصلے اور جذبے پھر سے جوان ہوں گئے ، ہم وہ ہوں گئے کہ ہماری ہر بات کو تسلیم کیا جائے گا، ہم وہ ہونگے کہ ہماری سوچ اقوام ِ عالم کے لیے ہونگی، ہم وہ ہونگے کہ کوئی بھی اسلامی ممالک کی طرف بری نظر سے نہیں دیکھ پائے گا، ہم وہ ہونگے کہ ہمارا سکہ زمانے میں چلتا ہو گا، ہم وہ ہونگے کہ ہم پر بھارت اگرچہ کہ کتنی ہی آبی جارحیت کرے گا مگر ہمارے ڈیم اس کی آبی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گئے، ہم وہ ہونگے کہ ہمارے ملک میں ہر کوئی اپنے آپ کو محفوظ جانے گا اور کھل کر کاروبار کو فروغ دے گا، ہم وہ ہونگے کہ چٹانوں کو اپنے پائوں کی جنبش سے ریزہ ریزہ کر دیں گئے۔
ناداں تھے ہم جو کھو دیا سب کچھ ہم نے
وہ دشت، وہ درد وہ سنگم بھری محفلیں
چھوڑے جو قانون و اصول و ضوابط ہم نے
سبھی آئے ناداں سمجھ کر پڑھانے ہمیں
سیکھ لیا ہے ہنر پلٹنے و چپٹھنے کا اب ہم نے
اب جو پلٹیں گئے تو زمانے دیکھیں گئے ہمیں
گرے آشیانوں کے تنکوں کو اکھٹا کر لیا ہم نے J.D
اب ہوائوں سے کہنا سنبھل جا، نہ چھیڑنا ہمیں

Mohammad Jawad Khan

Mohammad Jawad Khan

تحریر: محمد جواد خان
aoaezindgi@gmail.com