تحریر : سید امجد حسین بخاری پانامہ لیکس کے بعد سات ماہ تک یوں خاموشی چھائی رہی گویا حرمت کے ماہ ہوںاور ان میں قتال جائز نہ ہو۔ پھر اچانک حالات نے پینترا تبدیل کیا۔ حکومت پر بجلیاں گرانے کے لئے خیبر پختونخواہ ایک جمع غفیر اسلام آباد میں جمع کرنے کااعلان کیا گیا۔ پنجاب سے عوام کو کیوں نہیں لایا گیا؟ کیوں پنجاب کی ساری قیادت کو بنی گالہ کے محل میں بند کرکے رکھ دیا گیا اور کارکنان کو ٹھٹھرتی شاموں میں سردی اور مچھروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا؟ ان سوالات پر بہت سی تحریریں لکھی جا چکی ہیں اور بعد ازاں میڈیا کی جانب سے بھی سوالات اُٹھائے گئے۔ خیبر پختونخواہ کے صوابی انٹر چینج سے بغاوت کے نعرے بلند ہوتے ہوئے صوبائیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تو دوسری جانب اسلام آباد کی سڑکوں پر پکڑے جانے کے خوف سے گنڈا پوری شہد کے ڈیلر ز کی دوڑیں بھی میڈیا نے لائیو چلائیں۔ شیخ صاحب کے ناراض بیگمات والے شکوے بھی سننے کو ملے اور کسی سرکس بوائے کی طرح راولپنڈی کی گلیوں میں ان کا تماشا بھی دیکھا گیا۔چلیں اس سارے محل وقوع اور حدو اربعہ سے آپ کو متعارف کیا کرانا آپ تو واقف ہیں کیسے تحریک انصاف کے جیالے جنگلی سورئوں کا شکار ہوتے ہوتے بچے اور کیسے اسلام آباد میں کارکن ڈنڈے کھاتے رہے اور قائدین میڈیا ٹاک میں مصروف رہے۔ ان سارے حالات اور معمولات سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔
میڈیا نے آپ کو پل پل سے باخبر رکھا۔ اب آتے ہیں اصل معاملے کی طرف تحریک انصاف کا یک نکاتی ایجنڈا تھا تلاشی دویا استعفیٰ دو۔ یعنی خود کو احتساب کے لئے پیش کرو یا وازارت اعظمیٰ سے استعفیٰ دیں۔جی بالکل جائز مطالبہ تھا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کو بالکل ایسا ہی کرنا چاہئے کیوں کہ آئین پاکستان کی رو سے وہ جواب دہ ہیں۔ مگر احتساب کیا وزیر اعظم کا ہی ہونا چاہئے؟وزیر اعظم کا تو پانامہ میں سرے سے نام ہی نہیں۔ آف شور کمپنی تو جناب عمران خان صاحب کی بھی ہے۔ نام تو ان کا بھی پانامہ لیکس میں آیا، بڑا پن تو یہ تھا کہ اپنے آپ کو خان صاحب سب سے پہلے احتساب کے لئے پیش کرتے اور بعد ازاں اپنے جماعت کے ذمہ داران سے بھی کہتے کہ آپ بھی اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرو اور اس کے بعد ہی وزیراعظم کے پاس احتساب کے لئے جاتے۔مگر معذرت کے ساتھ جس تیزی سے پی ٹی آئی کا عوامی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے اس کو سہارا دینے کے لئے خان صاحب نے پانامہ کا ہنگامہ برپا کیا۔
اس دوران عدالت عالیہ نے میدان میں آکر خان صاحب کی عزت بچانے کے لئے موقع فراہم کیا ۔ جس کے بعد خان صاحب نے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ ان کے دونوں جانب کھڑے احباب جو یوم تشکر منا رہے تھے وہ بھی قرض کے کروڑوں روپے ڈکار کر معافی حاصل کر چکے ہیں۔جبکہ دوسری جانب جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے پانامہ سکینڈل میں ملوث شریف خاندان کے نو افراد سمیت چار سو پچاس افراد کو نامزد کیا اور مئوقف اختیار کیا کہ نہ صرف عدالت پانامہ سکینڈل میں ملوث افراد سے تفتیش کرے بلکہ ان افسران، سیاستدانوں اور افراد کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے جنہوں نے کروڑوں روپے معاف کرائے اور اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا۔قوم کے پیسوں پر جنہوں نے لوٹ مار کی ان سب کا احتسا ب ضروری ہے اور سراج الحق نے میڈیا کے سامنے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا۔ یہ امر جہاں ایک طرف قابل ستائش ہے وہیں دوسری طرف اپوزیشن اور حکومت دونوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
Supreme Court
اگر سپریم کورٹ عمران خان کی درخواست پر وزیراعظم کے خلاف فیصلہ سناتی ہے تو یقینا اسے سراج الحق کی درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے پانامہ سکینڈل کے تمام ملزمان کو کٹھرے میں لانے کا اعلان کرنا ہوگا۔ دوسری جانب تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف درخواستیں جمع کرا دی ہیں جس کا مطلب ہر رکشے کے پیچھے ایک مخصوص مصرعے کی شکل میں نکلے گا ” ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمھیں بھی لے ڈوبیں گے ” ۔لیکن حالات و واقعات سے لگ رہا ہے کہ ایک بار پھر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار دیکھنے کو ملے گا اور ”اتفاق میں برکت” والا محاورہ صادق آئے گا یعنی ”آدھا تیرا آدھا میرا”۔ مگر سب سے مشکل امتحان سپریم کورٹ کا ہوگا کہ وہ عوام کی امیدوں پر کتنا پورا اترتی ہے، تحریک انصاف کے ٹائیگرز کا یوم تشکر کسی کام آئے گا یا مسلم لیگ کے شیروں کی کچھار سلامت رہے گی۔ مگر عدلیہ کو عوام کے سامنے اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے تمام سیاست دانوںکا بلاتفریق احتساب کرنا ہوگا۔ جب احتساب کا نعرہ بلند ہو ہی گیا ہے تو لگے ہاتھوں قوم کی لوٹی دولت کا حساب تو لے ہی لینا چاہئے، کس نے کب اور کیوں قرضے معاف کرائے اس کی خبر بھی عوام کو ہو ہی جانی چاہئے، سوئس اکائونٹس کے اکائونٹ بھی کھول لینے چاہیں۔ یہ سب سیاسی انتقام کے لئے نہیں ملک کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔
خان صاحب قوم آپ سے یہ توقع کر رہی ہے کہ آپ صرف وزیراعظم کا احتساب نہ کریں بلکہ خود کو بھی اور اپنے رفقاء کو بھی احتساب کے لئے عدالت کے سامنے پیش کریں۔ اگر آپ کا اور آپ کی پارٹی کا دامن صاف ہے تو احتساب کرنے میں کیا حرج ہے۔ آپ اور آپ کی پارٹی کی بقاء اور عوامی مقبولیت آسمانوں کو چھو لے گی اگر آپ نے اپنے محاسبے کے لئے خود کو عدالت کے روبرو پیش کیا۔باقی اپوزیشن کی جماعتیں بھی اسی وجہ سے آپ کے ساتھ شامل نہیں کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ نواز شریف کے احتساب کے دوران کہیں ان کی داستانیں نہ کھل جائیں۔اگر کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے تو باقی سیاست دان کون سے دودھ سے دھلے ہوئے ہیں۔ کون سا گنگا جل ہے جس سے نہا کر وہ پاک و صاف قرار دئیے جارہے ہیں۔
خان صاحب !آپ بھی ن لیگ مخالفت سیاست ترک کرکے سب کے احتساب کا مطالبہ کریں۔ جب سب کا احتساب ہوگا تو ملک ترقی کی جانب گامزن ہوگا، عدالت کا وقار بحال ہوگا۔ قوم کے حقیقی ہیرو اور نجات دہند ہ بن کر سامنے آئیں گے۔اگر آپ بھی بقول سراج الحق ”تیرا چور مردہ باد…میرا چور زندہ باد” کی پالیسی اختیار کریں گے تو یقین جانئے پاکستانی قوم سوشل میڈیااور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے تیزی سے باشعور ہو رہی ہے، اس قوم کے نوجوان بھی اپنے ملک کی بہتری کے لئے سوچتے ہیں۔ انہیں اب کھوکھلے نعرے، نام نہاد دھرنے، ہوائی اعلانات، سیاسی شعبدے بازیاں اور یوم تشکر جیسی باتیں متاثر نہیں کریں گے۔ ان کے لئے حکومت اور اپوزیشن سبھی برابر ہوں گے اور جو نوجوان آپ کو تھرڈ آپشن سمجھ کر پلکوں پر بٹھا رہے ہیں ان کے لئے بھی فورتھ آپشن کی گنجائش نکل آئی گی۔