تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا ہماری بدقسمتی کہ ہم نے ” دین ِ اسلام ” کو صحیح معنوں میں سمجھا ہی نہیں ۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ اور اللہ پاک کے محبوب رسول اللہ ۖ کی تعلیمات پر سمجھ کر عمل کرتے تو ” دنیا جنت ” بن چکی ہوتی۔ رسالتِ مآب ۖ کے اعلان نبوت کے بعد دشمنان ” سردار الانبیاء ۖ ” اسلام جیسے مقدس دین کے دشمن بن گئے۔
گزشتہ دو ہفتوں سے عاشقان رسول ۖ نے اپنے پاکیزہ اور جائز مطالبے کے لئے ” پرامن دھرنا ” دیا ہوا ہے۔ یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اللہ رب العزت نے ” دین اسلام ” کو پسندیدہ دین قرار دیا ہے۔ اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جب اللہ پاک نے اعلان فرمایا کہ میں ” اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں۔ تب سے لیکر قیامت تک شیطان مردود اللہ والوں کا کھلا دشمن ہے۔
تحریک لبیک یارسول اللہ سیاسی جماعت ہے یا سیاسی میدان میں ہلچل پیدا کرے گئی سوال یہ نہیں بلکہ تحریک لبیک یا رسول اللہ کا دھرنا خالصتاً ” غیر سیاسی ” ہے۔ اور مجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ” دھرنا کا مقصد 90% پورا ہو گیا ہے۔ اور جو دس فیصد مسئلہ رہے گیا ہے کہ زاہد حامداور رانا ثنا اللہ کے استیفے یہ بات بھی کوئی غیر ممکن نہیں ! زاہد حامد نے ” قربانی کا بکرا ” بننے کی بجائے ” اس حمام میں سب ننگے ہیں ” کا فارمولہ اپناتے ہوئے اس سازش میں ملوث تمام افراد کو بے نقاب کرنے کی دھمکی دیکر ” قربانی کا بکرا ” بننے سے انکار کر دیا۔تازہ ترین خبروں کے مطابق فیض آباد میں تحریک لبیک یارسول ۖدھرنے کے دوران ایک مشکوک شخص کارکنوں کے ہتھے چڑھ گیا، دھرنے کے شرکاء کی آڑمیں شرپسندوں کا پتھراؤ کے نتیجے میں ایف سی اہلکار زخمی ہوگیا، پولیس نے سیف سٹی کمروں سے حملہ آور وں کی فوٹیچ حاصل کر کے تفتیش شروع کر دی گزشتہ جمعہ کے دن اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کیپٹن (ر) مشتاق احمداور آئی جی اسلام آباد خالد خٹک کو بلا کر انتظامیہ کو مظاہرین سے فیض آباد خالی کروانے کا حکم دیا تھا اور مجسٹریٹ کی جانب سے نہ صرف وارننگ کے لیٹر جاری کئے گئے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں رینجرز،ایف سی،اور پولیس کی بھاری نفری کو طلب کر لیا گیا۔
عدالتی حکم کے بعد پنجاب حکومت نے بھی اضافی نفری بھیجنے اور تعاون کی حامی بھر لی اور آپریشن کی نوید سنائے جانے کے بعد سیکورٹی اہلکاروں نے جناح ایونیو،کشمیر ہائی وے،اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے،مری روڈ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان (آئی جے پی) روڈ کو جانے والے تمام راستوں کو سیل کر دیا جس سے نہ صرف گاڑیوں،موٹر سائیکل او رسائیکل سواروں بلکہ پیدل چلنے والوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کر نا پڑا۔اس دوران فیض آباد کے مقام پر کئی مقامات پر سیکورٹی اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان کئی راہ گیر بھی آگئے جن میں اکثریٹ ایسے چہروں کی تھی جن کے مقاصد جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوتے ہیں اور ان کا مقصد صرف سرکاری املاک کو نقصان پہنچنااور شر پھیلاتے ہوئے امن امان کی صورت حال کو مزید خراب کرنا ہوتا ہے۔
گزشتہ جمعہ کے روز وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے پریس کانفرنس میں ایسے شرپسندوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ہفتے کی شام بھی جب ایک طرف مذاکرات کا دوسرا دور چل رہا تھا کہ مظاہرین کی آڑ میں ایک سیاسی جماعت کے کارکن اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے سے داخل ہوئے جس وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار پوزیشن سنبھالے ہوئے تھے اور دونوںطرف سے لبیک یارسول ۖکے نعرے بلند ہورہے تھے اور سیکورٹی اہلکار بھی اپنے سیفٹی ہیلمٹ زمین پررکھتے ہوئے دونوں ہاتھ بلند کر کے لبیک یارسول ۖکے نعرے بلند کر رہے تھے کہ اتنے میں مری روڈ سے یکے بعد دیگرے داخل ہونے والے شرپسندوں نے سیکورٹی اہلکاروں پر پتھراؤشروع کر دیا جس کی زد میں آکرحیدر عباس پلٹون نمبر 148 ایف سی اہلکار جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کوہاٹ کا رہائشی ہے شدید زخمی ہوگیا جسے فوری طور پر پاکستان میڈیکل انسٹیٹوٹ آف سائنس (پمز) منتقل کر دیا گیا بعدازں ایک مشکوک شخص کو دھرنے کی سیکورٹی پر معمور تحریک لیبک کے کارکنوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا جس کے بارے میں دھرنے کے شرکا ء کا کہناتھا کہ ہم نے رات گئے اسے پکڑاہے جس کو ہندی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے جس کو بعد ازں سیکورٹی اہلکاروں کے حوالے کرنے کی بجائے دھرنے کے شرکاء اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف معروف عالم دین اور رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کہاہے کہ پارلیمنٹ نے عقیدہ ختم نبوت کا قانون بحال کر دیا، حکومت کے پاس حالات سے نمٹنے کی قوت موجود ہے لیکن ملک کسی سانحہ کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ پی ٹی آئی ہو یا مسلم لیگ ن کسی کا دامن دھرنوں سے پاک نہیں، دھرنوں کی روایت حکومت اور لبرل جماعتوں نے شروع کی۔حکومت پر زور دیتا ہوں انتہائی اقدام نہ کرے بلکہ دھرنے والوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے، دھرنے کے شرکا سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ کوئی درمیانی راستہنکالیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کوجامعہ نعیمیہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ اسلام آباد میں دینی جماعتوں کے دھرنے سے عوام کی مشکلات کا احساس ہے لیکن ان کا دھرنا اور مطالبات بالکل جائز ہیں جبکہ ان کی قیادت ختم نبوت قانون بحال ہونے پر مطمئن ہے۔مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ دھرنے میں موجود مظاہرین کسی سیاسی جماعت کی اجرت پر لائے ہوئے لوگ نہیں بلکہ ختم نبوت پر کامل یقین رکھنے والے مسلمان ہیں، حکومت ان کے خلاف کسی سخت ایکشن لینے کا نہ سوچے بلکہ ایک بااختیار وفد مذاکرات کے لئے جائے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کرے تاہم کسی عالم یا مشائخ کو دھرنے والوں سے مذاکرات کا اختیار نہیں ہے،جب کہ مظاہرین سے بھی اپیل ہے کہ وہ درمیانی راستہ اپنائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا دینی جماعتوں کو کوریج نہیں دیتا، جبکہ پیمرا رمضان میں ناچ گانے اور دین کا تماشا بنانے والے پروگرامات کو بھی روکے۔مفتی منیب نے کہا کہ حکومت باآختیار افراد پر مشتمل مذاکراتی وفد کا انتخاب کرے جو مطالبات کو حل اور ذمہ داروں کا بتاتے ہوئے غلطی کا اعتراف اور قوم سے معافی مانگے۔ ایسا کوئی اقدام نہ اٹھایا جائے تاکہ پھر لال مسجد جیسا واقعہ دوبارہ رونما ہو ہم خبردار کرتے ہیں کے ملک لال مسجد جیسے سانحہ کا متحمل نہیں ہو سکتا،ریلی اور دھرنو میں پہلے بھی اموات ہوئی ہیں۔میں حکومت سے کہ رہا ہوں کے کوئی ایسا اقدام نہ کرے جس سے چیزیں اور الجھ جائیں۔ انہوں نے کہاکہ علامہ قادر حسین اور پیر افضل قادری ہمارے اسلام آباد میں نمائندہے ہیں۔انہوں نے میڈیا سے سوال کیا کہ کیا دینی طبقات پاکستانی نہیں ہیں؟؟؟۔حکومت کو اپنے عوام کے دینی جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تب بھی ہم قانون ہاتھ میں نہیں لییں گے۔
انہوں نے کہاکہمیڈیا بھی اپنا متعصبانہ رویہ ترک کرے جبکہ حکومت بھی میڈیا کی باتوں میں نہ آئے، میڈیا کی جانب سے خواجہ سراؤں، نابیناؤں، سیاسی جماعتوں اور ہر شخص کو کوریج ملتی ہے لیکن مذہبی جماعتوں کو کوریج نہیں دی جاتی جس سے احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے، خدارا میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور مذہبی طبقے کو انتہا پسندی تک جانے سے بچائے۔دشمن بہت چلاک و ہوشیار ہے۔ کئی ایسا نہ ہو دشمن کے تربیت یافتہ لوگ” تحریک لبیک یا رسول اللہ ” کے عاشقان رسول کے قافلوں میں شامل ہو کر پاکستانی اداروں ، پاکستانی ایجنسیوں اور پاکستانی املاک کو نقصان پہنچا کر ” معصوم مسلمانوں کے لئے پر امن دھرنے کو بدنام نہ کر دیں !ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک لبیک یا رسول کا دھرنا صرف تحریک لبیک یا رسول اللہ کا ہی دھرنا نہیں بلکہ 20,00000000 کروڑ مسلمانوں کا دھرنا ہے۔ امید واثق ہے تمام مطالبات حکومت ٹھنڈے دل و دماغ سے نہ صرف تسلیم کرے اور آئندہ ایسی کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گئی یقین دہانی کروائے اور سچے دل سے ” توبہ استغفار ”کرے تا کہ اللہ پاک کے غضب اور رسول اللہ کی ناراضگی سے بحثیت قوم بچا جا سکے!