تحریر : شاہ فیصل نعیم “آپ کی باتیں بھی آپ کی طرح ایک اُلجھی ہوئی کتھا، جس کا ایک سرا ہاتھ لگ جائے تو دوسرا ندارد اور اگر دوسرا پلے پڑ جائے تو پہلا غائب اس کو سمجھنے ، جاننے، ماننے اور پہچاننے کے لیے آپ کے جہاں میںوارد ہونا پڑتا ہے ۔ آپ کی باتیں عقل و شعور کے نہاں خانوں میں سوئی سوچ کو ایک نئی ڈگر پہ لے نکلتی ہیں یہی وجہ ہے آپ کو سننے کو دل کرتا ہے”۔ وہ بولتے بولتے رُکی اور پھر یوں گویا ہوئی :”آپ سے ایک سوال پوچھنا ہے اگر آپ اجازت دیںتو…”؟ “جی ضرور پوچھیں، ایک چھوڑجتنے چاہے سوال پوچھیں، جو کچھ میں جانتا ہوں وہ ناجاننے والوںکی امانت ہے اور جب اُن کادل کرے وہ اپنی امانت طلب کرسکتے ہیں”۔ پہلے تو تھوڑا ساشرمائی پھر ڈرتے ڈرتے پوچھنے لگی:”عاشق اور معشوق کے وصال کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ ہونا چاہیے یا نہیں”؟
“اگر عشقِ حقیقی کی بات کریں تو ایک عاشق کے لیے وصال سے بڑھ کر کوئی متاع نہیں، کڑی تپسیا ، صحرا نوردی، شب بیداری، پست حالی، آوارہ خیالی، ترکِ خواہشات و لذتِ طعام ودھن کا کوئی صلہ اگر اُسے تسکین بخش سکتا ہے تو وہ وصالِ محبوبِ حقیقی ہی ہے۔ یہی وہ لذت ہے جو حلاج منصور کو سولی پہ بھی اناالحق کا ورد کرنے پہ اُکساتی ہے، یہی وہ سرور ہے جو مومن کو سلگتے انگاروں پہ بھی نعرہ مستانہ لگانے کا جنون و جذبہ بخشتا ہے “۔
“اب آتے ہیں عشقِ مجازی کی طرف …وصال عشق کی انتہا ہے اورمنتہائے کمال یعنی انتہا وہ مقام جس سے آگے کچھ نہیں ماسوائے یہ مقام نا رہنے کے، وصال تک رسائی کے بعد تنزلی انسان کا مقدر ہے…عشقِ مجازی کے بارے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ آہستہ آہستہ انتہا کی طرف بڑھتے رہومگر جب انتہا کو پا لو تو بہتر ہے کہ خدا تمہیں اور زندگی نا دے۔وہ مصور تھا اپنے فن پہ اتنا نازاں جیسے کوئی حسین عورت اپنے حسن پر، اُس کے فن پاروں کو مصور ی کی دنیامیں وہ مقام حاصل تھا جو صرف اُسی کامقدر تھا۔
Painting
آج اُس نے شب و روز کی کڑی محنت کے بعد ایک ایساشہکار تخلیق کیا تھا جس کے سامنے اُس کی عمر بھر کی تخلیقات کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔مصور نے اپنی محبوبہ کو دعوت دی کہ وہ آئے اور اُس کے فن کو پرکھے ایک مدت گزری پھر کہیں جاکہ وہ دن آیا کہ اُس کے گھر کی دہلیز معشوق کی قدم بوسی کر رہی تھی ، محبوبہ اُس کی تخلیق کے رو بُرو کھڑ ی تھی اور مصور داد طلب نگاہوں سے اُسے تکے جا رہا تھا۔ پھر جن الفاظ میں لڑکی نے دادِ تحسین دی وہ اپنے اندر ایک نیرنگ رکھتے ہیںلڑکی مصور سے کہنے لگی :”اب بہتر ہو گا کہ تم مر جائو”۔ مصور کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور سوچنے لگا کہ اس نے تعریف کیا کرنی ہے یہ تواُلٹا بددعا دے رہی ہے۔
لڑکی نے مصور کے چہرے کے اڑتے ہوئے رنگوں کو دیکھتے ہوئے کہا:”تمہیں تعریف کرنے کا انداز انوکھا لگا مگر سچ یہی ہے اس سے بہتر فن پارہ تم بنا ہی نہیں سکتے یہ تمہارے فن کی انتہا ہے، نقطہ عروج ہے اس سے بہتر اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔ اگر تم زندہ رہے اور کوئی مزیدفن پارہ جنم دیا تو وہ تمہیں منتہائے کمال کی مسند سے گرا دے گا ، اب تمہارا زندہ رہنا کسی کام کا نہیں ، اسی لیے کہا کہ اب تم مر جائوکیونکہ تمہارامرنا ہی تمہیں اب زندگی بخشے گا”۔ واپس آتے ہیں جہاں سے بات کی مالا ٹوٹی تھی وہی سے پھر راگ الپتے ہیں، وہی سے سُر اور ساز کو جوڑتے ہیں ایک نیا آہنگ پیدا کرتے ہیں…تو ہم بات کر رہے تھے عشقِ مجازی کے وصال کی …
وصال سے قبل عاشق کی زندگی کے عجیب معمولات ہوتے ہیں، اُس کے شب و روز کا وظیفہ یہی اُدھیڑ بُن ہوتی ہے، وہ محبوب کا تصور کر کے اندر ہی اندر خوش ہونا، وہ رات گئے تک نیند کا نا آنا، وہ لوگوں کا رات کو دیر تک جاگنے کا سبب پوچھنا، وہ سرخ آنکھوں پر لوگوں کا جملے اُچھالنا، وہ اُس گلی سے رسوا ہو کہ آنا اور پھر اُسی در پہ جانا، وہ کتوںکے پائوں چوم کرشہرِ یار کی مٹی کامزہ لینا، وہ بدنامِ زمانہ کہلوانا اور اس پر بھی فخر محسوس کرنااور وہ لوگوں یوں آوازیں کسنا… یوں پکاریں ہیں مجھے کوچہء جاناں والے اِد ھر آ ابے او چاک گریباں والے
Sad Man
وہ لوگوں کے درمیان تماشا بننااور محبوب کے لیے انسان کی عقل و دانش سے ماورا کام کر گزرنا…”قیس”جسے لوگ مجنوں دیوانہ کہا کرتے تھے یہ اُس کی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ قیس سخت بیمار پڑگیاجب بیماری طول پکڑ گئی تو طبیب کو بُلایا گیا اُس نے جانچ پرکھ کر مشورہ دیا کہ بہتر ہو گا کہ جلدی سے کسی فصاد کو بلاکر فصد کروایا جائے ، ایسا کرنے سے ہی اسے افاقہ ہو گاجیسے تیسے فصاد کو بلایا گیا اُس نے آتے ہی ایک رسہ طلب کیا اور قیس کو ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا اور لگا اس کی ٹانگوں پہ کٹ لگانے قبل اس سے کے کوئی کٹ لگاتا قیس نے اُسے روک دیا …
فصاد نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا:”جناب ! یہ جسم میر ا نہیں لیلیٰ کا ہے اگر آپ نے اس پر کوئی کٹ لگایا تو لیلیٰ کو تکلیف ہوگی ، میرے حال پہ جو بیت رہی ہے میں اُسے تو برداشت کر سکتا ہوں مگر یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ میری لیلیٰ کو کوئی گزند پہنچے ، کوئی اُسے داغدار کرے”۔ عقل اسے مانتی ہے ؟ باالکل نہیں مانتی مگر وہ جنونی تو ڈٹا ہوا ہے…توہم بات کر رہے تھے عاشق کے انسان کی فہم و فراست سے ماورا کام کرنے کی۔
یہ سب فراق میں بیتی باتیں ہیں ایک عاشق کی زندگی کا سارا تانہ بانہ اُس کے شب و روز اس کش مکش میں گزرتے ہیں۔ وصال ہونا چاہیے میں اس کے خلاف نہیں ہوں مگرفراق کی ایک اپنی لذت ہے۔ جو مزہ ، جو خوشی عید سے ایک دن پہلے ہوتی ہے وہ عید والے دن کہاں…”؟