سوچوں کے بدلنے سے نکلتا ہے نیا دن

Thinking

Thinking

تحریر : فرح ہاشمی
تین دوستوں نے جن کی شادی نہیں ہورہی تھی ملک کے بادشاہ کو درخواست پیش کی کہ انکی شادی کروا دی جائے۔ بادشاہ نے تنیوں کو بلالیا اورکہا کہ میں تمہاری شادی کروادیتا ہوں لیکن ایک شرط ہوگی تم لوگوں کو ایک آزمائش سے گزرنا پڑے گا۔ جو کامیاب ہوگیا اس کی شادی ایک خوبصورت لڑکی سے کروادی جائے گی اور جو ناکام ہوا اس کی شادی بالترتیب بدصورت اور لڑاکا لڑکی سے ہوگئی انہوں نے شرط منظور کرلی۔انہیں ایک تاریک کمرے میں اکٹھا رکھا گیا۔ جہاں مکمل اندھیرا تھا۔ اور بتایا گیا کہ یہاں ایک ماہ تک رہنا ہے۔ یہیں سب کچھ کھانا پینا، سونا اور جاگنا ہوگاجبکہ کمرے میں جگہ جگہ پاپڑ رکھے گئے ہیں ان سے بچنا ہے کہ پائوں کے نیچے نہ آجائے۔ جس کا پائوں پاپڑ پر آگیا۔ اسکی شادی بدصورت لڑکی سے کردی جائے گی۔ اب تمام دوست اس آزمائش سے صحیح سلامت گذرنے کیلئے مکمل احتیاط سے رہنے لگے۔ نو دن خیریت سے گزرگئے۔ دسویں دن ایک دوست کا پائوں پاپڑ پر آگیا۔ فورا ًاسے سپاہی کمرے سے نکال کر لے گئے اور اسکی شادی بدصورت لڑکی سے کردی گئی۔اب باقی دو دوست خوش ہوئے کہ اب جگہ کھلی ہو گئی ہے۔ بیسویں دن ایک اور دوست کا پائوں پاپڑ پر آگیااور سپاہی اسے بھی روتا دھوتا لے گئے۔اب تیسرا اکیلا رہ گیا۔ اس نے باقی دن خیریت سے گزار لیے آزمائش پوری ہونے پر اسکی شادی ایک خوبصورت لڑکی سے کردی گئی اور وہ خوشی خوشی رہنے لگا۔ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا”تمھیں پتہ ہے میں تمھیں حاصل کرنے کیلئے کتنی تکلیف دہ آزمائش سے گزرا ہوںـ ”اور اسکے بعد مکمل تفصیل بتائی۔پھر پوچھا ”اچھا تم بتائو، تم نے مجھے حاصل کرنے کیلئے کیا کیا؟”بیوی نے ٹھنڈی سانس بھری اورکہا”ہم بھی تین سہیلیاں ایک کمرے میں بند تھیں۔

پھر ایک دن میرا پائوں پاپڑ پہ آگیا ۔ایسے ہی حادثاتی طور پر قلم پکڑنے اور صحافت کی حروفِ تہجی سے نا آشنا ایک غیر معروف موصوف کئی سال پرانے تحریری مواد کو کبھی کبھار نہیں تسلسل سے عنوان ،تاریخ اور چند سطور تبدیل کر کے( انتہائی محترم ایڈیٹوریل ایڈیٹرز کی مصروفیات سے غیر اخلاقی فائدہ اٹھاتے ہوئے) ‘ ‘ری پبلش” کروانے کے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے لکھتے ہیں” جہاں تک میرے محدود علم اور ناقص معلومات کا تعلق ہے تحریر لکھنے والے کی ملکیت اور پراپرٹی ہوتی ہے۔جہاں تک تحریر کے “ری پبلش “ہونے کی بات ہے تو میں اسے صحافتی یا اخلاقی جرم ماننے پر ہرگز ہرگز تیار نہیں ہوں۔ اگر ایسا ہے تو ہمارے ملک کے مایہ ناز کالم نگار جاوید چوہدری صاحب اپنے اخبارات میں شائع ہو جانے والے کالمز کو کتابی شکل میں شائع کروا کر “ری پبلشنگ”کے مجرم ہر گز نہ بنتے۔ نہ ہی ہمارا قومی نشریاتی ادارہ پی ٹی وی ایک ہی ڈرامہ کئی بار ری ٹیلی کاسٹ کر کے “ری ٹیلی کاسٹ”کا جرم کرتا ۔ حتیٰ کہ میں نے تو کئی کتب کے ایک کے بعد دوسرا دوسرے کے بعد تیسرا ایڈیشن بھی ری پبلش ہوتے دیکھا ہے۔ تازہ مثال میرے زیر مطالعہ راجہ انور کی کتاب “جھوٹے روپ کے درشن”ہے جس کا ساتوں ایڈیشن میرے سامنے ہے۔ حالانکہ ان کا وہی مواد، وہی موضوع اور وہی رائٹر ہوتا ہے” ۔ موصوف کی یہ دلیل دیکھ کر جہالت بھی ماتم کرنے پر مجبور ہوگئی کہ قلم کے تقدس کو کس طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ کاش میرے بھائی نے کبھی جاوید چوہدری کے کالمز کا مطالعہ کیا ہوتا توکبھی بھی ان جیسے نامور صحافی کا نام نہ لیتے کیونکہ راقم الحروف نے آج تک نہیں دیکھا کہ انہوں نے کبھی بھی اپنا سالوں پرانا تحریر کردو آرٹیکل نیوز پیپر میں ری پبلش کروایا ہو۔

کالمز کی کتابی شکل میں اشاعت کا مطلب ہر ایک کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ منتخب کالمز کا مجموعہ ہے مگر آپ جس رائٹر کی طرف داری کرکے اس مکروہ فعل کو جائز ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرر ہے ہیں۔ وہ رائٹر صاحب ہر سال عنوان بھی تبدیل کرتے ہیں اور تاریخ بھی ۔اگر ری پبلش کروانا فخر واعزاز کی بات ہے تو اپنے پیارے رائٹر سے یہ ضرور پوچھئے کہ آپ تاریخ و عنوان کیوں تبدیل کرتے ہیں؟؟؟ یہ کیو ں نہیں لکھتے کہ ” محترم ایڈیٹر صاحب ! یہ ہے وہ پرانی تحریر جو میں آپ کو کئی سال سے مسلسل بھیج رہا ہوں اور آپ کے ہی نیوز پیپر میں پہلے بھی فلاں فلاں سال شائع ہو چکی ہے۔ میرا چیلنج ہے آپ کو اور آپ کے پیارے رائٹر کو کہ صرف ایک بار ایسا کر کے دیکھیں اگر پھر ان کا یہ فخر و اعزاز ردی کی ٹوکری میں نہ پھینکا جائے تو میرا آپ سے وعدہ ہے کہ میں آپ کے قدم چھو کر معافی مانگوں گی۔ رہی بات آپ کی پی ٹی وی ڈراموں کے دوبارہ دکھانے کی تو عرض ہے کہ کاش آپ کی بینائی کمزور نہ ہوتی ورنہ پی ٹی وی سکرین پر جلی حروف میں ” نشر ِ مکرر” ”پرانی حُسین یادیں” یا” اولڈ از گولڈ”لکھا ہوتاہے جس کا مطلب ہر ذی شعور سمجھتا ہے کہ یہ پرانا ہے مگر آپ کے پیارے رائٹر ایسا لکھنے کی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے ؟؟؟۔ اس لیے کہ انہیں سو فی صد یقین ہے کہ ایسا لکھنے سے کو ئی ایڈیٹر بھی ان کا مضمون نہیں چھاپے گا۔ اسی لیے وہ تاریخ بھی تبدیل کرتے ہیں اور عنوان بھی اور ساتھ تیسری یا چوتھی کے بعد پانچویں سالگرہ یا برسی کا لفظ بھی بدلتے ہیںتو اب بتائیں کی یہ صحافتی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے کہ نہیں ؟؟؟ کیا ایسا کرنا قابل صد احترام ایڈیٹرز کی آنکھوں میں دھول جھونکنا نہیں کہلائے گا تو اس کو کیا نام دیا جائے؟؟؟ تاریخ ،عنوان اور پہلی چند سطور کو تبدیل کرکے پرانا تحریری مواد ری پبلش کروانا دھوکہ نہیں تو جناب لفظ ”دھوکہ”کے معانی ہی بتا دیں۔

Truth

Truth

حقیقت کو چھپانے اور سچ نہ بولنے کو آپ کیا کہیں گے ؟؟؟ ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے تعصب کی عینک اتارئیے اور سچائی کو تسلیم کیجیے کہ آپ کا رائٹر صحافتی بدیانتی کا مرتکب ہو رہا ہے مگر آپ یہ بات کیوں سچ تصور کریںگے کیونکہ آپ نے تو کوا سفید کہنے کی قسم کھائی ہوئی ہے کیوں کہ آپ کا پیارا رائٹر سال میں ایک یا دو بار نہیں پورا سال ہی پرانا مواد ری پبلش کرواتا رہا ہے اور یہ سلسلہ تادم تحریریر پوری ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی سے جاری و ساری ہے مگر پھر بھی آپ اسے رائٹر سمجھتے ہیں توا س میں آپ کا بھی اتنا قصور نہیں ہے کیوں کہ جس قوم میں فٹ پاتھ پر سانڈے کا تیل نکالنے والے اور کیکر کی گوند کو سلاجیت بنا کر بیچنے والے کو ڈاکٹر اور حکیم کہا جاتا ہوـجس قوم میں ہاتھ دیکھنے والا اور سڑک پر طوطے سے فال نکالنے والا پروفیسر اور عامل کا بورڈ لگائے بیٹھا ہو۔جس قوم میں پانی کے ٹیکے لگانے والا اپنی کلینک کے ماتھے پر اسپیشلسٹ کا اشتہاری بورڈ لگائے ہوئے ہو۔جس قوم میں خون کی بوتلوں میں نارمل سلائن ملا کر حرام خوری کی جاتی ہو۔جس قوم کے جاہل اسمبلیوں میں پہنچا دئیے جائیں اور قاتل و مجرم قانون سازی کرتے ہوں۔جس قوم میں ویگو، پراوڈ، جیسی گاڑیوں کو دیکھ کر ووٹ ڈالے جاتے ہوں۔اور سائیکل والے کو دھتکارا جاتا ہو۔جس قوم کے وزیر جعلی ڈگریاں لے کر اسمبلیوں میں وزیر تعلیم لگ جاتے ہوں۔

جس قوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری قابلیت کی بجائے سفارش اور رشوت کی بنیاد پر دینے کا رواج ہو۔جس قوم کے فراڈئیے، بہروپئیے عالم دین کا ٹائٹل سجائے ہوئے ہوں۔جس قوم کے ملاں عیداورشب برات کے چاند پر ایک دوسرے کی لتریشن کرتے ہوں۔جس قوم میں جوان بیٹیوں والے” غریب بھوکے” کے گھر کی دیوار کے ساتھ کروڑوں کی مساجد بنائی جاتی ہوں۔جس قوم کی فاحشہ دینی مسائل سمجھانے کے لیے ٹی وی پر بٹھا دی جاتی ہوں اور نام نہاد عالم آن لائن لوگوں کے ایمان کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوں۔جس قوم کے دہشت گرد خود کو مجاہدقرار دیتے ہوں۔جس قوم کے حکمران پیسہ لگا کر اقتدار خریدتے ہوں۔جس قوم کے منصف انصاف کے ترازو میں دولت کے وزن کے مطابق انصاف کرتے ہوں۔

جس قوم کے چوکیدار چوروں سے زیادہ لوٹتے ہوں اور جس قوم کے تاجر، دکاندار سو فیصد حرام کی کمائی سے حج اور عمرے کرتے ہوں۔ جس قوم میں بھوک اور افلاس ناچتے ہوں اور حکمران تماشہ دیکھتے ہوں وہاںآپ جیسے لوگ پرانا تحریری مواد ری پبلش کروانے والے کواگر رائٹر تسلیم کریں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ ان کی طرف داری میں فضول و بے وزن دلیلیں گھڑیں تو حیرانی کی کیا بات ؟؟؟۔جب تک آپ جیسے لوگوں کا وجود قائم ہے جہالت راج کرتی رہے گی لیکن یاد رکھیں سوچوں کے بدلنے سے نکلتا ہے نیا دن ۔۔سورج کے چمکنے کو سویرا نہیں کہتے۔ ا للہ سے دعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر آپ کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے (آمین)۔

Farrukh Hashmi

Farrukh Hashmi

تحریر : فرح ہاشمی