پاکستان کو آزاد ہوئے ٦٥ برس کا طویل عرصہ بیت چکا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ اس طویل مدت میں بھی ہمارا ایک قومی مزاج نہ بن سکا تبھی تو یہاں کے عوام کو بار بار یہ احساس ہوتاہے کہ کہ ان کا قومی اتحاد خطرے میں ہے۔ ملک کو باہر کے مقابلہ میں اندر سے زیادہ خطرات لاحق ہیں جو ظاہر ہے کہ قومی اتحاد کے نعرے لگانے سے دور نہیں ہوگا۔ اس کے لئے تو نعروں کے بجائے دلوں کو جوڑنا پڑے گا، حق و انصاف کی ایسی فضا قائم کرنا ہوگی۔
جو کمزوروں اور طاقتوروں یا اقلیتوں اور اکثریت کو باہم نزدیک لاسکے۔اس مقصد کے لئے ایک نئی سمجھ اور نیا جذبے کی ضرورت بھی ہوگی جسے دن بہ دن اپنے عروج کی طرف گامزن ہونے کی ضرورت ہوگی۔ مگر ہمارے یہاں سیاست گردی یا تیسرے درجے کی مصلحت پرستی کے باعث اور عوامی شعور کی لاعلمی کے باعث یہ معاملہ کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک دلفریب اور خوش کن اتفاق تب ہوا تھا جب عمران خان الیکشن کے زمانے میں سیڑھیوں سے گر پڑے تھے۔
اس کے بعد آپ سب نے بھی دیکھا اور محسوس کیا ہو گا کہ ہمارے ملک کی تمام ہی سیاسی جماعتوں نے اُن سے اظہارِ یکجہتی کی ، اور اپنے اپنے الیکشن پروگراموں کوایک دن کے لئے منسوخ کر دیا تھا۔ اور تمام ہی جماعتوں کے لیڈر ان بھی ان سے ملنے اور ان سے اظہارِ یکجہتی کی غرض سے ہسپتال پہنچے تھے، یہ تھی قومی یکجہتی ، اسے کہتے ہیں اتحاد و یگانگت ، ایک دوسرے کے درد کا خیال ، گو کہ یہ واقعہ معمولی نوعیت کا کہا جا رہا تھا مگر پھر بھی سب نے جس طرح اظہارِ یکجہتی کی مثال قائم کی ہے اس کی نظیر تلاش کرنا مشکل ہے۔
اگر اس واقعے کے بعد سب ایک دوسرے سے اس قدر قومی مزاج کا مظاہرہ کرتے نظر آئے تو سوچیئے کہ پاکستان کدھر جا رہا ہے، اور پاکستان کی اس وقت کیا حالت ہے، کیا ایسے میں ہمارے قومی رہنمائوں کا فرض نہیں کہ وہ پاکستان بچانے کے لئے بھی ایک ہوکر جد و جہد کریں، اسی طرح اتحاد کا مظاہرہ کریں، اسی طرح ملّی یکجہتی کا دامن پکڑ لیں کہ جس سے ہمارا پیارا وطن بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے اور یہاں کے عوام بھی خوشحال ہو جائیں۔
اصل میں لوگ زبان سے قومی اتحاد، انصاف اور محبت کی باتیں بہت کرتے ہیں مگر ان کا عمل اس کے قطعی خلاف ہوتاہے ( اگر خلوص کی چٹنی بھی شامل کر دیاجائے تو بھی لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ سب دکھاوا ہے) اسی لیئے آزادی کی چھ دہائیاں گزر جانے کے باوجود ہمیں قومی اتحاد کے لئے تقریر کرنا اور تجویزیں پاس کرنا پڑتی ہیں۔ حالانکہ یہ قوم سے زیادہ عمل کا متقاضی ہے اور اس بات کا بھی کہ جو چیزیں اس ملک میں موجود ہیں۔
انہیں سبھی اپنا سمجھیں اور جو باتیں انہیں ذاتی طور پر پسند نہیں انہیں حرفِ غلط کی طرح مٹانے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی ، تاریخ کے تسلسل اور جغرافیائی تقاضوں نے اس ملک کو جو شکل عطا کر دی ہے ، سب مل کر اس کو سنوارنے میں لگ جائیں، کیونکہ اس کو بگاڑے کی کوشش ہی قومی اتحاد کو کمزور کرتی ہے۔ بعض لوگ جو آج خود بخود قومی اتحاد کے ٹھیکیدار بن بیٹھے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ قومی اتحاد کا مطلب اقلیتوں کا اتحاد ہے۔
Muslim People
کیونکہ یہ ملک مسلمانوں کا ہے۔ دوستو! جو بھی اس ملک کا باشندہ ہے وہ اسی ملک کا ہمدردہے اور سب کو مل کر اس ملک کی خدمت کرنی چاہیئے۔ اگر ہماری سرکاریں قومی اتحاد کے بارے میں واقعی مخلص ہوتیں تو ان پہلوئوں پر سنجیدگی سے غور و خوض کرکے اصلاح حال کی فکر کرتیں اور انہیں یہ بھی احساس ہوتا کہ قومی اتحاد کو باہرکے مقابلہ میں اندر سے زیادہ خطرہ ہے۔
جس کو دور کئے بغیر قومی اتحاد محض تقریروں یا قرار دادوں سے قائم نہیں ہوسکتا بلکہ آپ سب کو اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم کرتے ہوئے اس سارے معاملے کو حل کرنا پڑے گاکہ جس سے یہاں کے عوام کو بلا تفریق رنگ و نسل فوائد حاصل ہو جائیں۔ ہمارا ملک اور یہاں کے باسی آج جن مسائل کا شکار ہیں اس میں ملک کے رہنمائوں کی اوچھی سیاست کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ معاملات سلجھانے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اپنا سارا وقت برباد کر دیتے ہیں اور ترقی کرنے کا عرصہ انہی کاموں کے نظر ہو جاتاہے۔
گو کہ ہمارے ملک میں لیڈر شپ کا فقدان نہیں مگر ان سب کے ساتھ میڈیا کے بقول اور اخبارات کی شہ سرخیوں کے مطابق ایک نیا جوش اور ولولہ کے ساتھ کئی جماعتیں اس صف میں پاکستان کو سنوارنے کے لئے میدانِ عمل میںموجود ہیں۔ ویسے بھی پاکستان امریکی و بھارتی تہذیب اور امریکہ پرستی میں بہت آگے جا چکا ہے یہاں کی معاشرتی حالت بہت ہی دگر گوں ہے۔
کسی بھی سطح پر کسی بھی فرد کو شفاف انصاف میسر نہیں ، دنگا فساد ، قتل و غارت گری اور بے امن و امانی نے اس ملک کی معیشت پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں جس کے زخم کو مند مل ہونے میں وقت درکار ہے۔لیکن چونکہ اُمید پر دنیا قائم ہے اسی لئے لوگ خدائے بزرگ و برتر سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کبھی تو یہاں بھی سب کچھ ٹھیک ہوگا، کبھی تو یہاں کے عوام کو بھی روزگار میسر آ سکے گا ، کبھی تو یہاں کے باسیوں کو دہشت گردی سے نجات مل پائے گی وغیرہ۔
حکومتوں کو ستمگر نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ اگر حکومتیں ستمگر ہو جائیں تو وہ صرف حکمرانی کے لئے سب کچھ کرتے ہیں توظاہر ہے کہ ظالموں کو سزا کبھی نہیں مل سکے گی۔ اور ایسی حکومتیں لوگوں کو جو کمزور ہیں ، مظلوم ہیں ان کو ظالم حکومتیں اپنا غلام اور اپنا نوکر چاکر بنا کر رکھنا پسند کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ اکثر تو وڈیروں اور جاگیرداروں کے یہاں نجی جیل برآمد ہوتے رہتے ہیں جہاں غریب محنت کشوں کو زنجیر میں باندھ کر رکھا جاتاہے اور ان سے محنت و مشقت کروایا جاتا ہے۔
Political Party
حالات اس قدر دگر گوں ہے کہ پسماندہ طبقات سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں اور ساتھ میں سفید پوش متوسط طبقہ بھی ۔اسی کا نام ظلم کرنا اور ظلم کو بتانا اور یہ بتانا ہے کہ اگر اِن کا ساتھ نہیں دو گے تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ غریب طبقہ سوچتا ہے کہ وہ جائے توکہاں جائے۔ لیکن حکمران کبھی یہ نہیں سوچتے کہ جمہوریت میں متحد اور منظم ہوکر معاہداتی سیاست کرنی چاہیئے اس سے تمام طبقات کا بھلا ہو سکتا ہے۔ اور ایسا آج کل ملک بھر میں دیکھنے میں آ رہاہے۔
اب بات عوام پر آتی ہے تو انہوں نے اب وہ اپنے لئے اگلے پانچ سال کا عرصہ شیرکے سپرد کر دیا ہے۔ دیکھئے عوام نے جو فیصلہ دیا ہے اس پر ان کی شعور کا کتنا عمل دخل ہے کچھ عرصے بعد ہی تمام تر صورتحال واضح ہونا شروع ہونگی۔ وگرنہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عوام کو ابھی مزید آزمائشوں سے گزرنا ہے ۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ملک میں عدل و انصاف ہوگا۔
مجرموں کو بلا تفریق مذہب و رنگ و نسل سزا دیا جائے گا تب ہی عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں ورنہ اس ملک کے عوام غلامی اور غریبی سے چھٹکارہ نہیں پائیں گے۔شاعر کے زبان میں اگر مضمون کو مختصر کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ شعر مضمون کے خد و خال کے لئے صادق آتا ہے۔ ایک آسیب زدہ ذہن کا ڈر کھولتے ہیں آ کسی اجڑی ہوئی آکھ کا در کھولتے ہیں
تھرتھراتی ہے ہوا کانپنے لگتی ہے فضا جب پرندے کہیں سمٹے ہوئے پر کھولتے ہیں