تحریر : ایم سرور صدیقی نہ جانے وہ کون تھا؟ میں تو نام بھی نہیں جانتا مجھے یقین ہے آپ بھی یقینا اس سے واقف نہیں ہوں گے لیکن اس کے خیال نے دنیا کو بدل کررکھ دیا۔بجپن میں نے بھی شوق سے پڑھی اور سنیں آپ نے بھی جنوں بھوتوںکی کہانیاں پڑھی نہ سہی سنی ضرور ہوںگی ملک کوئی بھی ہو یا کوئی چھوٹا بڑاشہر۔۔ پسماندہ ہو یا تہذیب یافتہ سب بچوںکو ایسی کہانیاں پڑھنے سننے کا شوق ہوتاہے اور بیشترکو ذوق بھی۔ خوفناک دیو یا جن جب شہزادی کو اٹھاکرآسمان کی طرف پروازکرتاہے تو بچوںکا اضطراب دیدنی ہوجاتاہے میرے خیال میںاسے بھی یہ خیال اسی تخیل سے آیاہوگا کہ جن یا دیو اڑ سکتا ہے میں کیوں نہیں اس لئے پرندوںکی طرح اڑنے کی کوشش کی جائے اس کے بعد یہ سوچ آنا یقینی بات ہے کہ کیسے اڑا جا سکتاہے۔۔۔۔میرادل بے اختیاراس سخص کو سیلوٹ کرنے کو کررہاہے جو دنیا میں پہلی مرتبہ اپنے بازو اور ٹانگوںپر لمبے لمبے پر لگاکر اڑنے کی کوشش میں گرکر زخمی ہوگیا اس کے بعد اسی تگ ودو میں کئی افرادزخمی ہوئے کئی چل بسے دراصل نئی نئی اختراع ایجادکرتے رہنا ،بنی نوع انسانیت کی فلاح کیلئے کام کرنا یا کم از کم اپنی ذاتی ترقی کے بارے ہی سوچتے رہنا زندگی علامت ہے ہمارے ارد گرد پھیلے ایک جہاں۔۔گنجان آبادی والے بڑے بڑے شہر اورہر قسم کی سہولتوں سے مزین پر آسائش گھروں اور دفاتر اور کئی کئی منزلہ کاروباری مراکز کو غور سے دیکھئے یقیناکچھ عرصہ قبل ان کا وجود تک نہیں ہوگا آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے حیرت کا ایک نیا جہاں آبادہوگیا اور بیشتر لوگ تعجب سے اسے دیکھ دیکھ کر اب تک حیران کچھ پریشان ہوتے رہتے ہیں کہ محو۔
حیرت ہے دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔۔کیا سے کیا ہوگئی ہے؟ جو حیرت کا شکارہیں۔۔۔جوحیران کچھ پریشان ہیں اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان تمام لوگوںنے وقت کی نزاکت کااحساس نہیں دنیا قیامت کی چال چلتی رہی اوروہ فرسودہ خیالوں اور دقیانوسی ماحول سے باہر ہی نہیں نکلے انہوںنے سمجھ لیا یہ زندگی کا حاصل ہے یا وہ جس ماحول میں رس بس گئے ہیں اسی میں قدرت خوش ہے یا کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود تو کچھ کرتے نہیں لیکن اپنا ہر معاملہ اللہ پر ڈال دیتے ہیں کہ اسے منظورہوتا تو ہم بھی ترقی کرتے اس نے پرندوں کی طرح اڑنے کی کوشش کرنے والوں سے بھی کچھ نہیں سیکھا اپنے ارد گرد ہونے والی تبدیلی کو بھی محسوس نہیں کیا۔۔۔تو پھر خدا سے گلہ کیسا؟ اپنی تقدیرسے شکایت کیوں؟ اور لوگوں سے جیلسی کس لئے؟ اللہ تعالیٰ نے واضح کردیاہے میں کسی کو اس کی محنت سے زیادہ نہیں دیتا۔۔۔ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھائیں کسے راہرو ِ منزل ہی نہیں کوئی مانگنے والا ہو اسے شان ِ کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔
نہ جانے وہ کون تھا؟میں تو نام بھی نہیں جانتا مجھے یقین ہے آپ بھی یقینا اس سے واقف نہیں ہوںگے لیکن اس کے خیال نے دنیا کو بدل کررکھ دیا دنیا کی بڑی بڑی ایجادات۔نئی نئی سوچ کی بدولت ہوئی ہیں اس لئے ہمیں قرآن نے غور وفکر کرنے کا حکم دیاہے تاکہ بنی نوع ِ انسانیت کا دامن نت نئی ایجادات سے بھرا رہے اور ہر دور کو درپیش چیلنجزسے نبرد ازماہونے کیلئے نئی سوچ ،نئے خیالات اور نئی ٹیکنالوجی سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں۔ سب نے تسلیم کیا ہے دنیا کی سب سے بڑی ایجاد پہیہ ہے بظاہر ایک چھوٹی سی ایجادنے ایسا انقلاب بپا کردیا کہ اس کی بدولت زندگی آسان ہوگئی اور انسان کے ترقی کیلئے ایک نیاجہاں دریافت ہوگیا لیکن ایک بڑے دکھ کی بات یہ ہے مسلمان پچھلے700سالوںسے آہستہ آہستہ تنزلی کی طرف گامزن ہیں تنزلی کا یہ سفر اب تلک جاری ہے لیکن کسی کو مطلق احساس تک نہیں اسے اجتماعی بے حسی سے بھی تعبیر کیا جا سکتاہے پرندوںکی طرح اڑنے کا شوق ایک نئی جہت کا آغاز تھا مگر ہم نے توسوچناہی چھوڑ دیاہے غور وفکر تو اس سے اگلی بات ہے ۔چاند کی تسخیرکا نظریہ پیش کرنے والے ولیم سے کسی نے پوچھا تمہیں کیا سوجھی۔
ALLAH
کیسے خیال آیا کہ چاند پرجانے کا بھی سفرکیا جا سکتاہے؟۔۔۔ویری سنپل ۔۔۔گورے نے ایک عجب سٹائل سے کہامیں نے مسلمانوںکی الہامی کتاب کی ایک آیت(ترجمہ)”ہم نے زمین آسمان کے دروازے تمہارے لئے کھول دئیے ہیں غور وفکر کرنے والے کیلئے بہت نشانیاں ہیں” پر غور کرنا شروع کیا زمین کے دروازے کھولنے کا مطلب معدنیات،تیل ، گیسز ،سونا،چاندی لوہا ،نمک، تانبا،یورینیم اور دیگر چیزوںکی دریافت ہے لیکن آسمانوں کے دروازے کھولنے سے کیا مرادہے میں نے اس کے متعلق سو چنا شروع کردیا لیکن کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی پھر جب میں نے آیت کے اگلے مفہوم ” غور وفکر کرنے والے کیلئے بہت نشانیاں ہیں” پر ریسرچ شروع کی تو حیرت کے ایک نیا جہاں کا مجھ پر انکشاف ہوا میں حیرت سے ساری رات نہ سو سکا اس اینگل سے سوچا آسمان میں کچھ سیارے ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن میں ہو سکتاہے زمین کے طرح زندگی کا وجود ہو وہاں کسی خلائی مخلوق کی حکمرانی ہواب اس موضوع پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں یا وہاں انسان کی آباد کاری کی کوشش کی جائے اس نقطہ ٔ نظر سے ریسرچ کا دائرہ ِ کا بڑھایا نتیجہ آپ سب کے سامنے ہے”یعنی کوئی مانگنے والا ہو اسے شان ِ کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔
یہ بات یقینی ہے کہ ہم مسلمانوںکوآج بھی لوگوںنے وقت کی نزاکت کااحساس تک نہیں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے چین۔۔۔جاپان کی ترقی کو نگل گیا اب جاپانی کمپنیاں چین میں مینو فیکچرنگ کرنا اپنے لئے اعزاز سمجھتی ہیں۔۔بنگلہ دیش کی آزادی کو صرف32سال ہو ئے ہیں اور وہاں کم وبیش 2000پاکستانی تاجر،صنعت کار اور سرمایہ کاروںنے ہیوی انوسٹمنٹ کررکھی ہے اس کے برعکس ہم نے آج تک کیا کیا۔۔بیکو جیسا شاہکار ادارہ تباہ کر ڈالا۔۔۔پاکستان سٹیل ملز ہم سے چل نہیں رہی مسلسل خسارا اس کا مقدر بناہواہے۔ پاکستان ریلوے کی حالت سب کے سامنے ہے اور تو اور پی آئی اےPIAجیسا قومی ادارہ آخری ہچکیاں لے رہا ہے اس کے علاوہ انگنت سفید ہاتھی قومی خزانے پر مستقل بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ کسی کے اچھوتے خیال نے دنیا کو بدل کررکھ دیا۔
ہم خوابوں ،خیالوںکی دنیا سے ہی باہر آنے کو تیار نہیں۔۔۔آئیے !ہم سب ا س ماحول کو بدلیں پاکستان کو نئی سوچ دیں، اچھوتے خیال پیش کریں یہی زندگی کی علامت ہے اور ترقی کی بنیاد بھی۔میرادل توبے اختیاراس سخص کو سیلوٹ کرنے کو کررہاہے جو دنیا میں پہلی مرتبہ اپنے بازو اور ٹانگوںپر لمبے لمبے پر لگاکر اڑنے کی کوشش میں گرکر زخمی ہوگیا دنیا قیامت کی چال چلتی جا رہی ہے اور ہم فرسودہ خیالوں اور دقیانوسی ماحول سے باہر ہی نہیں نکلتے کیا ترقی آپ کا حق نہیں؟ خدارا !اب تو سوچ بدلیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔