تحریر : ایس یو سمیع کسی زمانے میں خطوط بھیجے جاتے تھے ‘اس زمانے میں قلمی دوستی ہوا کرتی تھی’ آج کے دور میں موبائل دوستی اور نیٹ دوستی (فیس بک’یاہو’اورٹوئٹر دوستی) معرضِ وجودمیں آئی ہے۔زمانہ کتنی ترقی کر گیاہے کہ ہم پاکستان ہی میں مختلف اشیاء بنا رہے ہیں یعنی میڈ ان پاکستان ‘جیسے شیعہ ‘سنی’وہابی ۔ ۔ ۔۔ایک لمبی لسٹ ہے لیکن آج تک لفظ”موبائل سیلولر فون” کا اُردو میں مترادف نہیں تلاش کرپائے اوربڑھکیں سُنیئے تو لاحول ولا پڑھنے کو دل کرتاہے۔بدلتے زمانے میں موبائل دوستی سود مند بھی ہوسکتی ہے اور خطرناک بھی۔اکثر خواتین وجواں سالہ بچے اسی موبائل دوستی میں اپنی عفت کھو چکے ہیں۔ہمارا بھی ایک فیس بک اورموبائل دوست ہے ۔جس کی سوچ کے اپنے ہی زاوئیے ہیں۔انہی زاوئیوں کی موجودگی میں اُن کی بے لوث باتیں اوربسااوقات” مدد”ہمارے دل میں اُن کیلئے ایک تگڑا سامقام بنا چکی ہے اس سب کے باوجود نہ وہ ملنے آئے ہیں’ نہ ہم نے ہمت کی ہے۔اب تو وہ ایک کتاب کے مالک بھی بن چکے ہیں ‘مالک سے یاد آیااُن کا نام ۔ ۔ ۔ ۔نام۔۔عبدالماجد ملک ہے۔ایک خوبصورت لوگو”عوام کی سوچ” کے ساتھ کالم پر طبع آزمائی کرتے ہوئے اکثراخباروں میں پائے جاتے ہیں۔
یوں تو چونکہ موبائل پر آج کل بندے کی فوٹوبھی نازل ہوجاتی ہے لیکن ہم انہیں خواب میں بھی کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ان کی ایک خوبی کفایت شعاری ہے۔کفایت شعاری میں وہ اتناکمال رکھتے ہیں کہ منت ‘ترلہ کرنے کے باوجود مجھے خواب میں بھی اپنی کتاب نہیں دی۔ہم بھی انہی کے اہل وطن ہیں ‘لہذا ہم بھی کفایت شعاری میں اپناثانی نہیں رکھتے ‘ محترم ناصرملک کے پاس بیٹھے ‘بیٹھے مفت میں ان کی کتاب اُٹھائی اورپڑھنا شروع کردی۔آج کے دورمیں بجلی نام کو نہیں لیکن ماجدبھائی کی کتاب بندے کے ساتھ بجلی کی طرح چمٹ جاتی ہے اوربندے کو ویساہی کردیتی ہے جیسا۔۔۔حال بجلی کرتی ہے یعنی آتی جاتی رہتی ہے’ خیالوں میں۔ساٹھ فیصد کتاب پڑھنے کے باوجود دل کرتاہے ‘اپنی معصوم سی لائبریری میں ماجد بھائی کی سوچوں کا ٹوکرایعنی ”سوچ نگر”کتاب لاکررکھ دوں۔اس کا فائدہ یہ ہوگاکہ جب بور اوربوجھل کرنے والی کتابیں پڑھ کر اکتاجائوں گاتو ”سوچ نگر”کا ایک آدھ مضمون دہرالوں گاجیسے اُٹھ مجاہد جاگ ذرا’گداگری وغیرہ۔دوسرا فائدہ یہ ہو گاکہ میری کتابیں دیکھنے والے پر اچھاامپریشن پڑے گاکہ روزنامہ جناح کے وڈے لکھاری کی کتب ‘معاف کیجئے گاکتاب بھی لائبریری میں شامل ہے’وہ جرورسوچے گاکہ ہونہ ہویہ اس کا یار ہوگا۔اب آپ سوچیں گے کہ قاری کو کیسے پتہ چلے گا توبھائی میں کتاب کے خالی صفحے پر لکھ دوں گاناں’ عبدالماجد ملک سکنہ رکھی’ میانوالی کی طرف سے۔
کتاب کے متعلق ایک اہم بات آپ کیلئے بتاناضروری سمجھتاہوں۔کتاب خریدنے سے پہلے آپ کو معلوم ہوناچاہیئے کہ لکھاری سیدھاسادہ بندہ ہے۔شلوارقمیض اورکبھی کبھی پینٹ شرٹ کے ساتھ ٹائی لگاکرلاہور کی گلیوں میں پھرتاہے۔یہ سب معلومات مصدقہ ہیں اورمیں نے نیٹ سے ڈائریکٹ حاصل کی ہیںلہذاغلط ہونے کا سوال ہی نہیں پیداہوتا۔ہاں تو بات ہورہی تھی ماجد بھائی کی کفایت شعاری کی تو اس کا ایک فائدہ قاری کو بھی پہنچتاہے ۔ماجد بھائی مضمون کے انتخاب میں بھی کفایت سے کام لیتے ہیں’کوئی ایسا موضوع کم چنتے ہیں جس میں کوئی پکوڑے یاگلے ‘سڑے امرود بیچے۔وہ ہمیشہ رہنے والے اورمعاشرتی وسماجی اصلاح کے موضاعات کو سپرد قلم کرتے ہیں۔البتہ ایک بیماری انہیں ہے’ جس سے مجھے الرجی ہے ۔بیماری کا آپ کا اسلیئے نہیں بتائوں گاکہ کتاب پڑھ کر آپ کو خود بخود معلوم ہوجائے گا۔اگر آپ بھی میری طرح کنجوس ‘مکھی چوس ہیں تو اس کتاب کو پڑھنے کیلئے ”مکتبہ علم ودانش” کی ویب سائٹ پر جائیے اورلطف اُٹھائیے۔
Book
عبدالماجدملک آج کل لاہور کی ایک چنگی وڈی ڈائنوسارجتنی کمپنی میں مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔کار بھی انہوں نے بدل لی ہے اسلیئے آج کل وہ فری رہتے ہیں کیونکہ پہلے میں نے جب بھی فون کیاوہ ورکشاپ ہی میں مصروف پائے گئے۔ایک مرتبہ تو نہیں معلوم کیاوجہ تھی کہ مجھ سے بات کرتے ہوئے فون بھائی فرخ شہبازوڑائچ کو دے دیا۔مجھے توفائدہ پہنچاکہ ایک نئے وڈے صحافی سے شناسائی ہوگئی لیکن ماجد صاحب کا نقصان ہواکہ موبائل کی بیٹری ڈائون ہوگئی۔سناہے جب ورکشاپ میں ہوتے ہیں توکال اٹینڈ نہیں کرتے بلکہ مستری پرنظررکھتے ہیں’کیونکہ وہ بھی تو ایک قسم کاکرنٹ افیئر ہی ہواناں جی۔اگر آ پ کو میری بات کا یقین نہیں آرہاتو”سوچ نگر”پڑھیئے ‘آپ کو خود بخود اندازا ہوجائے گاکہ وہ کرنٹ افیئرز پر کتنی گہری نظررکھتے ہیں۔بات سے بات نکلتی ہے ‘لفظ دو ہیں ”کرنٹ” اور”افئیرز” معلوم نہیں انکی دلچسپی کس میں ہے۔اگر آپ کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تو مجھے بھی ضرور اطلاع کیجئے گا۔
آخرمیں آپ کا تجسس ختم کرنے کیلئے انکی بیماری کے متعلق لکھتاچلوں کہ انھیں غریب لوگوں کی مدد کرنے اور بغیر ڈیٹا کے کالم لکھنے کی بیماری ہے۔بیماری کی شق دوم ہی کی بناء پر وہ دوسرے کالم نگاروں سے مختلف ہیں۔لفاظی اورتضنع سے حتی الوسع کنارہ کش رہتے ہیں۔شاعربھی ہیں ۔اوریہ انکی بیماری کی تیسری شق ہے جس سے مجھے الرجی ہے کیونکہ ایک تو کوشش کے باوجودمجھے شاعری کرنی نہیں آتی’ دوسراسناہے کہ قومیں جب زوال پذیر ہوں تو کثرت سے شاعری کرتی ہیں اورجب ان کے عروج کازمانہ ہو تو ”نثر ”تحریرہوتی ہے۔مغلیہ سلطنت کے عروج میں بادشاہوں نے ”تزک بابری” اورتزک جہانگیری لکھی اوربیش بہا نثر تخلیق ہوئی جبکہ زوال کا بادشاہ’ بہادر شاہ ظفرجوکہ بلند پایہ شاعر تھا’ غالب کو اچھی تنخواہ بھی نہ دے سکتاتھا۔
یہ بھی سن رکھاہے کہ ایک بادشاہ نے اکبراعظم کے متعلق کہاتھاکہ مجھے اس کی تلوارسے زیادہ اُس کے چہیتے لکھاری کی قلم سے زیادہ خوف آتاہے۔لگتا ہے اسی عروج وزوال کے گھن چکر سے بچنے کیلئے عبدالماجدملک نے پہلے نثرکی کتاب متعارت کروائی ہے ۔اس لیئے میںنے سوچاکہ اسکازوال آنے سے پہلے ہی کچھ لکھ دوں ‘ممکن ہے ارادہ ترک کردے ۔مگر دھن کا پکا ہے ‘میانوالی کی مٹی سے خمیر اُٹھا ہے ‘اُمید ہے ایسانہیں کرے گا۔ایک تو آپ کو ہر بات مثال دے کر سمجھانی پڑتی ہے ‘بھائی جب فائدہ ہویانقصانُ ہم چار مہینے دھرنادے سکتے ہیں تو شاعری کیوں نہیں کرسکتے ‘ہیں جی!