تحریر : سید امجد حسین بخاری پریس کانفرنس کے لئے کیمرے لگے ہوئے تھے، کچھ ٹرینی رپورٹرز اور چند ایک سنجیدہ افراد ہال میں موجود تھے، عموما اس کی کوریج میڈیا پر نہیں ہوتی تھی، اسی لیے اسائنمنٹ ایڈیٹرز عموما کوئی خاص رپورٹرز اس کی کوریج کے لئے نہیں بھیجتے تھے کیوں کہ اس کی خبر میڈیا پر چلنی نہیں تھی ، لیکن کیا خبر تھی کہ آج کی پریس کانفرنس نہ صرف قومی میڈیا بلکہ بین الاقوامی میڈیا کی زینت بننے والی تھی، دن کو ہونے والی پریس کانفرنس اگلے روز کے اخبارات کی سپر لیڈ تھی، ہاکرز نے جب اخبارات لوگوں تک پہنچا دئیے تو اس کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، مجبورا ایک بار پھر اسے پریس کانفرنس کرکے وضاحت دینا پڑی ، وضاحت کے بعد میڈیا پر اٹھنے والا طوفان تھم گیا، قوم مطمئن ہوگئی اور چائے کی پیالی پر اٹھنے والے طوفان میں جھاگ کی طرح ٹھہراو آگیا۔ مگر رات گئے “یوم تشکر” کے موقع پر جہان جشن فتح منایا جا رہا تھا وہیں قوم کو ایک نئے اضطراب میں مبتلا کردیا گیا۔
شیخ رشید احمد صاحب یک رکنی پارٹی کے تاحیات سربراہ نے مخصوص لہجے میں آکر “کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا” کہہ کر ایک مرتبہ پھر طوفان کی لہروں کو ایک مرتبہ پھر حرکت دے دی، شاید ان کی بات کو قوم اس طرح سنجیدگی سے نہ لیتی مگر قبلہ عمران خان صاحب کے بیان نے اس طوفان کو سونامی میں بدل دیا، ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا، ایک اور انداز میں چیزیں دیکھی جانے لگیں، ایک بار پھر چائے کی پیالیوں سے کھانے کی میزوں تک اس موضوع پر گفتگو ہونے لگی۔ اس ساری تمہید کے پیچھے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کا وہ بیان تھا جس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر میڈیا پر بیان کیا گیا، اس بیان کومخصوص رنگ دینے کے پیچھے کون سے عوامل اور کون افراد موجود تھے ، “یوم تشکر کے موقع پرجو زبان وزیر اعظم کے خلاف استعمال کی گئی وہ ایک قومی لیڈر کی بجائے ایک سٹریٹ بوائے کی محسوس ہو رہی تھی۔
راجہ فاروق حیدر کی گفتگو بھی کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے ایک منتخب وزیر اعظم کی زبان سے کسی بھی صورت میں ایسی الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہیں اور ہاں راجہ فاروق حیدر صاحب اور آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کو پاکستان کی سیاست میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ میڈیا ہاوسز کو اپنی ذاتی لڑائیوں بھی میں کشمیر جیسے حساس موضوع کو استعمال نہیں کرنا چاہیے، اب خود ہی فیصلہ کریں کہ اپنی لڑائیوں میں آدھے گھنٹے کی پریس کانفرنس میں سے صرف 16 سیکنڈ کے کلپ کو چلا کر “میں سوچوں گا” اب یہ سوچ کیا ہے حضور ؟ کیوں اس بات پر تیل کیوں انڈیل رہے ہیں؟حضور والا ! بطور کشمیری میں سوچوں گا کہ مجھے کس طرح کا پاکستان چاہیے؟ اور الحاق پاکستان کے بارے میں سوچوں گا؟ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں، جان کی امان پاوں تو عرض ہے کہ قبلہ پہلی بات میں پاکستان میں تبدیلی کے بات ہے جبکہ دوسری بات میں تو واقعی بغاوت کا عنصر غالب ہے مگر راجہ فاروق حیدر نے پاکستان میں تبدیلی کو ہدف تنقید بنایا ہے نہ کہ پاکستان سے الحاق پر سوال اٹھایا ہے۔
عمران خان صاحب کے میڈیا ایڈوائزرز نے انہیں اس حوالے سے شاید مکمل طور پر آگاہ نہیں کیا یا وہ بغض معاویہ میں سب کچھ کہہ گئے۔ دوسری اہم بات جو سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث تھی وہ یہ کہ عمران خان نے وزیر اعظم آزاد کشمیر کے حوالے سے جو زبان استعمال کی اس کی بنیاد ان کے ناپسندیدہ میڈیا گروپ کی ہیڈ لائن تھی،تو کیا جناب اعلیٰ نا پسندیدہ میڈیا گروپ آپ کی حمایت میں کوئی بیان دے دے گا تو وہ ٹھیک مخالفت میں دے گا تو وہ زیر عتاب، عمران خان کی جانب سے وزیر اعظم آزاد کشمیر کے خلاف بیان بازی کے بعد میں نے راجہ فاروق حیدر خان سے رابطہ کیا، ان کے جذبات اور تکلیف اور کرب کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لئے ناممکن ہے، اسی کے بعد سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر اور پیپلز پارٹی سے وابستہ چوہدری عبد المجید سے رابطہ کیا ان کا کہنا تھا کہ اپنی ذاتی لڑائیوں میں کشمیر کو گھسیٹ کر عمران خان نے لاکھوں کشمیریوں کی دل آزاری کی ہے، عمران خان نے یہ بات محض ایک وزیر اعظم کو نہیں کی بلکہ کشمیریوں کے لئے یہ الفاظ استعما ل کئے ہیں۔انہیں پوری کشمیری قوم سے معافی مانگنی چاہیے، اس کے علاوہ میں نے بہت سے افراد کے ساتھ رابطہ کیا پوری کشمیری کمیونٹی چیرمین پی ٹی آئی کے بیان کے بعد شدید اضطراب کا شکار ہے، جو کہ نیک شگون نہیں ہے۔
خان صاحب! آپ کشمیریوں کی حب الوطنی پر شک کرتے ہیں تو سنیں، پاکستان سیاست دان سوئس بینک بھرتے ہیں مگر بیرون ملک مقیم کشمیری اپناایک ایک روپیہ پاکستان بھیجتے ہیں، لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کشمیری دفاع پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں، آپ نے اپنےیوم تشکر کے موقع پر کہا تھا ناں کہ ان کا خدا پیسہ ہے اور میرا سب کچھ میرے بیٹے تھے جو مجھ سے چھن گئے، حضور والا ! ایک بار ٹیٹوال کے مقام پر آئیں جہاں دریائے نیلم کے شور میں اپنے پیاروں کے دیدار کو ترستی آنکھوں کی بے بسی اور چیخیں سنائی دیتی ہیں۔
جناب اعلیٰ! آپ نے کہا ہے ناں کہ کشمیریوں پر مظالم برپا ہیں، یہ بات میں تسلیم کرتا ہوں کہ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک کشمیر کی جدوجہد کے حوالے سے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں جس کی کسی دوسری سیاسی جماعت کو توفیق نہ ہو سکی مگر ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ کشمیر پر ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کا آپ نے بائیکاٹ کیا تھا۔چیرمین تحریک انصاف کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کے بیانات بھی منظر عام پر آئے مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ بھیڑ چال ملک کے سنجیدہ ترین طبقے کی جانب سے کیوں اپنائی جا رہی ہے۔
لیکن کشمیری سیاست دانوں کی کردار کشی صرف پاکستان میں نہیں کی جارہی بلکہ گذشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ایک بیان کےبعد ان پر بھی غداری کے الزامات لگے ، جبکہ بھارتی ایجسنی این آئی اے نے کئی حریت رہنماوں کو غیرملکی فنڈنگ کے الزامات لگا کر حراست میں لے لیا یہی نے سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق پر بھی کرپشن کے الزامات لگا کر ان کی کردار کشی کے ایک نیا سلسلہ شروع ہو چکا،اب پاکستان اور بھارت دونوں طرف کشمیریوں کی کردار کشی اور ان پر غدار ہونے کے الزمات لگائے جا رہے ہیں، یہ سلسلہ کس نے اور کیوں شروع کیا اس سوال کے پیچھے بھی ان گنت سوالات ہیں۔
یاد رکھیے ! کسی کو حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم نہ کریں ، سیاست دان قوم کے لئے رول ماڈل ہوتے ہیں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان ، فاروق حیدر اور عمران خان سبھی ہمارے لئے قابل احترام ہیں مگر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کسی ایک بھی فرد کی کردار کشی ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، آپ نے جو کہنا ہے اسے اسمبلی کے فلور پر کہیں کیوں کہ کچھ سوالات ایسے ہوتے ہیں جنہیں میڈیا پر نہیں پوچھا جاتا، ایسے سوالات صرف آپ کی شخصیت کے لئے ایک سوالیہ نشان بن جاتے ہیں، ہاں یاد رکھیں دوسروں کو اپنے گھر کی جانب انگلیاں مت اٹھانے دیں کیوں کہ آپ اپنے گھر کے محافظ ہیں، وزیر اعظم آزاد کشمیر اور کشمیری قوم کے جذبہ حب الوطنی پر شک نہ کریں کیوں کہ شک تعلقات کی خرابی کی پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔